ETV Bharat / bharat

قوم کا بہتر مستقبل اعلیٰ معیار ِتعلیم میں مضمر

بھارت میں 1.5ملین اسکولوں کی موجودگی کے باوجود یہ ملک کمزور نظام تعلیم کی وجہ سے پندرہ سال پیچھے ہے۔انفراسٹکچر سے لیکر ٹیچنگ سٹاف تک ہر سطح پر خامیوں کی وجہ سے ہمارے بچوں کی قابلیت ضائع ہوجاتی ہے۔ جب تک ہمارے 19ہزار ٹیچنگ ٹریننگ اداروں میں پائی جانے والی کاہلی دور نہیں ہوجاتی ٹیچنگ کا معیار بہتر نہیں ہوسکتا ہے۔ بھارت کا نام مسلسل ان 74ممالک میں شامل ہے جہاں تعلیمی شعبے میں مختلف سطحوں پر اساتذہ کی قلت ہے۔اس وجہ سے ہمارے ملک میں معیارِ تعلیم ابتر ہوتا جارہا ہے۔

قوم کا بہتر مستقبل اعلیٰ معیار ِتعلیم میں مضمر
قوم کا بہتر مستقبل اعلیٰ معیار ِتعلیم میں مضمر
author img

By

Published : Mar 20, 2020, 5:05 PM IST

یونیورسٹیاں اعلیٰ تعلیم کے حصول کا ذریعہ ہیں۔ فکری عروج اور تخلیقی صلاحیتوں کو نکھارنے اور بلندیوں تک پہنچانے میں یونیورسٹیوں کا ایک کلیدی رول ہے۔یہ سماج کو بہتر انسانی وسائل فراہم کرتی ہیں۔ لیکن آج ہمارے ملک میں ان اعلیٰ تعلیمی اداروں کی حالت کیا ہے؟ ان کی اکثریت فنڈس کی قلت اور تعلیمی عملہ کی کمی سے جوجھ رہی ہیں۔ اس ضمن میں پارلیمانی اسٹینڈنگ کمیٹی نے مرکزی وزارت برائے انسانی ذرائع کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔

رواں مالی سال کے لئے ہائر ایجو کیشن محکمہ کو 58ہزار کروڑ روپے مطلوب ہیں۔ لیکن حالیہ مرکزی بجٹ میں ان کے لئے محض39ہزار کروڑ روپے مختص رکھے گئے ہیں۔ پارلیمانی اسٹینڈنگ کمیٹی نے نئے تعلیمی عہدوں کوقائم کرنے اور طلبا ۔ اساتذہ کی مطلوبہ شرح کو پورا کرنے کے لئے اس مختص کی گئی رقم کو ناکافی قرار دیا ہے۔ سٹینڈنگ کمیٹی نے ہائر ایجوکیشن کے مختلف سطحوں پر خالی پڑی اسامیوں کی تفصیلات بھی سامنے لائی ہیں۔

اس کے مطابق این آئی ٹیز میں 37.7فیصد سے زائد اسامیاں خالی ہیں۔ لگ بھگ اتنی ہی اسامیاں سینٹر ل یونیورسٹیوں میں بھی خالی پڑی ہیں۔جبکہ آئی آئی ٹیز میں 29فیصد سے زائد اسامیاں پُر کرنی مطلوب ہیں۔ مجموعی طور پر ان اداروں میں فی الوقت 78ہزار اسامیاں خالی ہیں۔ عمومی طور پر ہائر ایجوکیشن کے اِن اداروں میں ایک تہائی ٹیچنگ سٹاف کی کمی ہے۔

نیتی آیوگ کے رکن وی کے سرسوت نے اس مسئلے کی جڑ کا پتہ لگا دیا ہے۔ اس کے مطابق چین میں ہائر ایجوکیشن کے لئے سالانہ دس لاکھ کروڑ رووپے مختص رکھے جاتے ہیں ۔ یعنی اگر چین کے ساتھ موازنہ کیا جائے تو اس حوالے سے ہماری پوزیشن سمندر کے مقابلے میں ایک قطرے جیسی ہے۔ اسٹینڈنگ کمیٹی کے مطابق ہائر ایجوکیشن کے لئے مختص رقومات میں سے پچاس فیصد فنڈس آئی آئی ٹیز، آئی آئی ایمز اور این آئی ٹیز کو جاتے ہیں۔ جبکہ 49فیصد فنڈس ملک بھر کے865 اداروں میں جاتے ہیں، جن میں مجموعی طور پرہمارے 97فیصد طلبا زیر تعلیم ہیں۔

ملک کے تعلیمی شعبے کو کئی دیگر مسائل کا بھی سامنا ہے۔سات دہائیاں قبل ڈاکٹر سروپالی رادھا کرشنا، جو اُس وقت یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کے چیئر مین کے عہدے پر فائز تھے انہوں نے کہا تھا کہ ہائر ایجوکیشن کے شعبے کو وسعت دینے کیلئے اسے وقت پر موثر کرنا ہوگا۔ قوم کی تعمیر کے لئے ہائر ایجوکیشن کی کتنی اہمیت ہے ۔ یہ سمجھنے میں ہماری متواتر حکومتوں نے لاپرواہی کا مظاہرہ کیا۔ نتیجے کے طور پر آج اس شعبے میں ٹیچنگ سٹاف کی کمی پائی جارہی ہے۔

نیتی آیوگ نے حال ہی میں مشورہ دیاکہ بھارت میں سالانہ دو لاکھ طلبا کو مستفید کرنے کیلئے خصوصی تعلیمی سینٹر قائم کئے جائیں۔ حصولِ تعلیم کے لئے غیر ملکی طلبا بھارت کا رُخ کرتے ہیں ۔ ہمارا ملک غیر ملکی طلبا کو تعلیم فراہم کرنے میں 26ویں نمبر پر ہے۔ مودی سرکار نے گزشتہ سال تیس ممالک کے طلبا کو متوجہ کرنے کے لئے ’ اسٹیڈی اِن انڈیا ‘ ( بھارت میں تعلیم حاصل کرو) کی اسکیم متعارف کرائی ۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یونیورسٹیوں اور نئے قائم شدہ معتبر تعلیمی اداروں مدرسین کے عہدوں کے لئے مطلوبہ تعلیمی قابلیت کے حامل مناسب اُمیدواروں کو تلاش کرنا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ ہمارے یہاں پی ایچ ڈی اور پوسٹ گریجویٹ ڈگریوں کے حامل اُمیدوار بھی انٹرویز میں فیل ہوجاتے ہیں۔ یہ صورتحال ہائر ایجوکیشن کے گرتے ہوئے معیار کا عکاس ہے۔مستقبل میں ان اداروں کے لئے ماہرین تعلیم کو تیار کرنا ہی سب سے بڑا چیلنج ہے۔ دو سال قبل یونیورسٹی گرانٹس کمیشن ( یو جی سی ) نے ہائر ایجوکیشن میں اساتذہ کے معیار کا تنزل روکنے کیلئے کئی نئے رہنما خطوط فراہم کئے تھے ۔

جعلی پی ایچ ڈی کے معاملات کا تسلسل کے ساتھ سامنے آنا ایک دھچکہ دینے والی بات ہے۔اس صورتحال کا حل یہ ہے کہ ہائر ایجوکیشن کا اعلیٰ معیار قائم کرنے کا ہدف لیکر ایک طویل مدتی ایکشن پلان مرتب کیا جائے۔ قوموں کی تعمیر میں تعلیم کا ایک اہم کردار ہوتا ہے۔ بہتر معیار تعلیم سے ہی ہماری آنے والی نسلوں کی سربلندی ہوگی ۔ لیکن اس ملک میں اتنے اہم شعبے کی بنیادیں ہی کمزور ہیں۔

ماضی میں یونیسکو کی ایک تحقیق کے مطابق بھارت میں 1.5ملین اسکولوں کی موجودگی کے باوجود یہ ملک کمزور نظام تعلیم کی وجہ سے پندرہ سال پیچھے ہے۔انفراسٹکچر سے لیکر ٹیچنگ سٹاف تک ہر سطح پر خامیوں کی وجہ سے ہمارے بچوں کی قابلیت ضائع ہوجاتی ہے۔ جب تک ہمارے 19ہزار ٹیچنگ ٹریننگ اداروں میں پائی جانے والی کاہلی دور نہیں ہوجاتی ٹیچنگ کا معیار بہتر نہیں ہوسکتا ہے۔ بھارت کا نام مسلسل ان 74ممالک میں شامل ہے جہاں تعلیمی شعبے میں مختلف سطحوں پر اساتذہ کی قلت ہے۔اس وجہ سے ہمارے ملک میں معیارِ تعلیم ابتر ہوتا جارہا ہے۔

چین بیرونی ممالک کی یونیورسٹیوں میں بطور اساتذہ کام کرر ہیں۔ ایک لاکھ پی ایچ ڈی ڈگریوں کے حامل اپنے شہریوں کو واپس ملک بلانے کے لئے انہیں بطور تنخواہ خطیر رقومات فراہم کرنے کی پیش کش کررہا ہے۔ہمارے ملک کے لئے بھی ضروری ہے کہ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اساتذہ کی حوصلہ افزائی کرے اور انہیں اچھے عہدے ، اچھی اجرتیں اور اچھی تربیت فراہم کریں۔

نئی قومی تعلیمی پالیسی جس کا مقصد ایک متحرک تعلیم یافتہ سماج کو تشکیل دینا ہے اور اس پالیسی کو اپنا کام زمینی سطح سے کرناہوگا۔ ہائر ایجوکیشن کے لئے معیاری تعلیم ہی ایک واحد راستہ ہے۔ ایک مضبوط قوم کی تشکیل کے لئے معیاری تعلیم کا ہونا ضروری ہے۔

یونیورسٹیاں اعلیٰ تعلیم کے حصول کا ذریعہ ہیں۔ فکری عروج اور تخلیقی صلاحیتوں کو نکھارنے اور بلندیوں تک پہنچانے میں یونیورسٹیوں کا ایک کلیدی رول ہے۔یہ سماج کو بہتر انسانی وسائل فراہم کرتی ہیں۔ لیکن آج ہمارے ملک میں ان اعلیٰ تعلیمی اداروں کی حالت کیا ہے؟ ان کی اکثریت فنڈس کی قلت اور تعلیمی عملہ کی کمی سے جوجھ رہی ہیں۔ اس ضمن میں پارلیمانی اسٹینڈنگ کمیٹی نے مرکزی وزارت برائے انسانی ذرائع کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔

رواں مالی سال کے لئے ہائر ایجو کیشن محکمہ کو 58ہزار کروڑ روپے مطلوب ہیں۔ لیکن حالیہ مرکزی بجٹ میں ان کے لئے محض39ہزار کروڑ روپے مختص رکھے گئے ہیں۔ پارلیمانی اسٹینڈنگ کمیٹی نے نئے تعلیمی عہدوں کوقائم کرنے اور طلبا ۔ اساتذہ کی مطلوبہ شرح کو پورا کرنے کے لئے اس مختص کی گئی رقم کو ناکافی قرار دیا ہے۔ سٹینڈنگ کمیٹی نے ہائر ایجوکیشن کے مختلف سطحوں پر خالی پڑی اسامیوں کی تفصیلات بھی سامنے لائی ہیں۔

اس کے مطابق این آئی ٹیز میں 37.7فیصد سے زائد اسامیاں خالی ہیں۔ لگ بھگ اتنی ہی اسامیاں سینٹر ل یونیورسٹیوں میں بھی خالی پڑی ہیں۔جبکہ آئی آئی ٹیز میں 29فیصد سے زائد اسامیاں پُر کرنی مطلوب ہیں۔ مجموعی طور پر ان اداروں میں فی الوقت 78ہزار اسامیاں خالی ہیں۔ عمومی طور پر ہائر ایجوکیشن کے اِن اداروں میں ایک تہائی ٹیچنگ سٹاف کی کمی ہے۔

نیتی آیوگ کے رکن وی کے سرسوت نے اس مسئلے کی جڑ کا پتہ لگا دیا ہے۔ اس کے مطابق چین میں ہائر ایجوکیشن کے لئے سالانہ دس لاکھ کروڑ رووپے مختص رکھے جاتے ہیں ۔ یعنی اگر چین کے ساتھ موازنہ کیا جائے تو اس حوالے سے ہماری پوزیشن سمندر کے مقابلے میں ایک قطرے جیسی ہے۔ اسٹینڈنگ کمیٹی کے مطابق ہائر ایجوکیشن کے لئے مختص رقومات میں سے پچاس فیصد فنڈس آئی آئی ٹیز، آئی آئی ایمز اور این آئی ٹیز کو جاتے ہیں۔ جبکہ 49فیصد فنڈس ملک بھر کے865 اداروں میں جاتے ہیں، جن میں مجموعی طور پرہمارے 97فیصد طلبا زیر تعلیم ہیں۔

ملک کے تعلیمی شعبے کو کئی دیگر مسائل کا بھی سامنا ہے۔سات دہائیاں قبل ڈاکٹر سروپالی رادھا کرشنا، جو اُس وقت یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کے چیئر مین کے عہدے پر فائز تھے انہوں نے کہا تھا کہ ہائر ایجوکیشن کے شعبے کو وسعت دینے کیلئے اسے وقت پر موثر کرنا ہوگا۔ قوم کی تعمیر کے لئے ہائر ایجوکیشن کی کتنی اہمیت ہے ۔ یہ سمجھنے میں ہماری متواتر حکومتوں نے لاپرواہی کا مظاہرہ کیا۔ نتیجے کے طور پر آج اس شعبے میں ٹیچنگ سٹاف کی کمی پائی جارہی ہے۔

نیتی آیوگ نے حال ہی میں مشورہ دیاکہ بھارت میں سالانہ دو لاکھ طلبا کو مستفید کرنے کیلئے خصوصی تعلیمی سینٹر قائم کئے جائیں۔ حصولِ تعلیم کے لئے غیر ملکی طلبا بھارت کا رُخ کرتے ہیں ۔ ہمارا ملک غیر ملکی طلبا کو تعلیم فراہم کرنے میں 26ویں نمبر پر ہے۔ مودی سرکار نے گزشتہ سال تیس ممالک کے طلبا کو متوجہ کرنے کے لئے ’ اسٹیڈی اِن انڈیا ‘ ( بھارت میں تعلیم حاصل کرو) کی اسکیم متعارف کرائی ۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یونیورسٹیوں اور نئے قائم شدہ معتبر تعلیمی اداروں مدرسین کے عہدوں کے لئے مطلوبہ تعلیمی قابلیت کے حامل مناسب اُمیدواروں کو تلاش کرنا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ ہمارے یہاں پی ایچ ڈی اور پوسٹ گریجویٹ ڈگریوں کے حامل اُمیدوار بھی انٹرویز میں فیل ہوجاتے ہیں۔ یہ صورتحال ہائر ایجوکیشن کے گرتے ہوئے معیار کا عکاس ہے۔مستقبل میں ان اداروں کے لئے ماہرین تعلیم کو تیار کرنا ہی سب سے بڑا چیلنج ہے۔ دو سال قبل یونیورسٹی گرانٹس کمیشن ( یو جی سی ) نے ہائر ایجوکیشن میں اساتذہ کے معیار کا تنزل روکنے کیلئے کئی نئے رہنما خطوط فراہم کئے تھے ۔

جعلی پی ایچ ڈی کے معاملات کا تسلسل کے ساتھ سامنے آنا ایک دھچکہ دینے والی بات ہے۔اس صورتحال کا حل یہ ہے کہ ہائر ایجوکیشن کا اعلیٰ معیار قائم کرنے کا ہدف لیکر ایک طویل مدتی ایکشن پلان مرتب کیا جائے۔ قوموں کی تعمیر میں تعلیم کا ایک اہم کردار ہوتا ہے۔ بہتر معیار تعلیم سے ہی ہماری آنے والی نسلوں کی سربلندی ہوگی ۔ لیکن اس ملک میں اتنے اہم شعبے کی بنیادیں ہی کمزور ہیں۔

ماضی میں یونیسکو کی ایک تحقیق کے مطابق بھارت میں 1.5ملین اسکولوں کی موجودگی کے باوجود یہ ملک کمزور نظام تعلیم کی وجہ سے پندرہ سال پیچھے ہے۔انفراسٹکچر سے لیکر ٹیچنگ سٹاف تک ہر سطح پر خامیوں کی وجہ سے ہمارے بچوں کی قابلیت ضائع ہوجاتی ہے۔ جب تک ہمارے 19ہزار ٹیچنگ ٹریننگ اداروں میں پائی جانے والی کاہلی دور نہیں ہوجاتی ٹیچنگ کا معیار بہتر نہیں ہوسکتا ہے۔ بھارت کا نام مسلسل ان 74ممالک میں شامل ہے جہاں تعلیمی شعبے میں مختلف سطحوں پر اساتذہ کی قلت ہے۔اس وجہ سے ہمارے ملک میں معیارِ تعلیم ابتر ہوتا جارہا ہے۔

چین بیرونی ممالک کی یونیورسٹیوں میں بطور اساتذہ کام کرر ہیں۔ ایک لاکھ پی ایچ ڈی ڈگریوں کے حامل اپنے شہریوں کو واپس ملک بلانے کے لئے انہیں بطور تنخواہ خطیر رقومات فراہم کرنے کی پیش کش کررہا ہے۔ہمارے ملک کے لئے بھی ضروری ہے کہ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اساتذہ کی حوصلہ افزائی کرے اور انہیں اچھے عہدے ، اچھی اجرتیں اور اچھی تربیت فراہم کریں۔

نئی قومی تعلیمی پالیسی جس کا مقصد ایک متحرک تعلیم یافتہ سماج کو تشکیل دینا ہے اور اس پالیسی کو اپنا کام زمینی سطح سے کرناہوگا۔ ہائر ایجوکیشن کے لئے معیاری تعلیم ہی ایک واحد راستہ ہے۔ ایک مضبوط قوم کی تشکیل کے لئے معیاری تعلیم کا ہونا ضروری ہے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.