گاندھی جی کے ایک بیرسٹر دوست جیون لال نے انھیں ایک خوبصورت بنگلہ تحفے میں دیا، جو اس وقت ستیہ گرہ آشرم کے نام سے جانا جاتا تھا۔ لیکن گاندھی جی کو اس سے کہیں زیادہ بڑے علاقے کی ضرورت تھی، جہاں کھیتی باڑی، مویشی پروری اور کپڑے بنائی کا کام کیا جا سکے، اس لیے اس کے دو برس بعد اس آشرم کو سابرمتی ندی کے کنارے منتقل کیا گیا اور یہ آج سابرمتی آشرم کے نام سے مشہور ہے۔
دیو مالائی قصے کہانیوں کے مطابق یہ جگہ ددیچی رشی کے قدیم آشرم کے مقامات میں سے ایک ہے جس نے دیوس کو اپنی ہڈیاں عطیہ کی تھیں تاکہ وہ آسوروں کو شکست دے سکیں۔
وہیں گاندھی جی کا خیال تھا کہ آشرم ایک قید خانہ اور ایک شمشان گھاٹ کے بیچ ایک ایسی مثالی جگہ پر واقع ہے، جہاں سے ستیہ گرہ کی بگل بجائی جا سکتی ہے۔
گاندھی جی کے زمانے میں اسی آشرم میں ایک اسکول تھا، جہاں دستکاری، مزدوری، زراعت اور خواندگی پر توجہ دی جاتی تھی۔
سابرمتی آشرم سے گاندھی جی نے 12 مارچ 1930 کو ڈانڈی مارچ کی قیادت کی، جہاں ہزاروں افراد اکٹھا ہوئے تھے۔
سنہ 1930 کے 12 مارچ کو گاندھی جی نے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ جب تک بھارت آزادی حاصل نہیں کرتا تب تک وہ آشرم میں واپس نہیں آئیں گے۔ اس کے بعد گاندھی جی 30 جنوری 1948 کو قتل کر دیے گئے اور وہ کبھی بھی اپنے گھر نہیں لوٹ سکے۔
آج یہ سابرمتی آشرم بے راہ روی کے شکار افراد کو سیدھی راہ دکھاتا اور ان کی رہنمائی کا کام کرتا ہے اور یہاں آنے ہر فرد کو گاندھیائی فلسفے کا درس دیتا ہے۔
سچائی اور عدم تشدد کے فلسفوں کی آماجگاہ اور ملکی و غیرملکی سیاحوں کا پسندیدہ مقام سابرمتی آشرم اپنے یہاں ہر آنے والے کو حق اور پرامن انقلاب کا پیغام دیتا ہے۔