ETV Bharat / bharat

فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے فروغ میں گاندھی کا کردار

مہاتما گاندھی نے سبھی مذاہب کے لوگوں کے ساتھ دعائیہ تقریب کا آغاز کیا تھا، اس میں مختلف مذاہب کی تعلیمات کے اقتسابات پڑھ کر سنائے جاتے تھے۔ یہ بات کافی مشہور ہے۔

فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے فروغ میں گاندھی کا کردار
author img

By

Published : Aug 20, 2019, 10:41 AM IST

Updated : Sep 27, 2019, 3:17 PM IST

گاندھی جی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے نظریے پر پختہ یقین رکھتے تھے۔ وہ بچپن سے ہی اپنے والد کے ساتھ ساتھ رہے جس کی وجہ سے انہیں اپنے والد کے دوستوں سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا جو الگ الگ مذاہب سے تعلق رکھتے تھے جن میں اسلام اور پارسی مذہب کے ماننے والے بھی شامل تھے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ مسیحی مذہب کے تعلق سے الگ رائے رکھتے تھے چونکہ انہوں نے سنا تھا کہ اس مذہب میں ہندو بھگوان پر نکتہ چینی کی جاتی ہے اور گائے کا گوشت کھانا و شراب نوشی کرنا، ان کے مذہب کا لازمی حصہ ہے۔

انگلینڈ میں جب گاندحی جی کی ملاقات ایک ایسے عیسائی شخص سے ہوئی، جو گوشت اور شراب نوشی سے بالکل دور رہتا تھا، اس شخص نے گاندھی جی کو بائبل پڑھنے کی ترغیب دی تو گاندھی جی نے سنجیدگی سے اس مذہب پر غور کیا پھر جب انہوں نے بائبل کا نیا نسخہ پڑھنا شروع کیا تو خاص طور پر اس خیال سے متاثر ہوئے کہ "اگر کوئی آپ کو دائیں گال پر تھپڑ مارے تو آپ اپنا بائیں گال بھی اسے پیش کر دو'۔

بائبل پڑھنے سے پہلے ہی، انہوں نے مختلف مذہبی کتابوں کے اقتباسات کو پڑھا تھا جس سے انہیں یہ خیال آیا تھا کہ برائی کو برائی سے نہیں بلکہ اچھائی سے ہی ختم کیا جا سکتا ہے۔

انہیں بچپن میں ہی مختلف مذاہب سے روشناس کرایا گیا تھا لیکن بچپن میں پڑھائے گئے سبق کے تعلق سے وہ ہمیشہ پس و پیش میں رہتے تھے، اس کے باوجود انہیں اس بات کا پختہ یقین تھا کہ تمام مذاہب مساوی احترام کے لائق ہیں۔

انہوں نے کم عمر میں ہی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے فروغ دینے کی کوشش شروع کر دی تھی۔

وہ مانو اسمرتی کے مطالعے کے بعد اور بھی زیادہ ملحد ہو گئے جس کی تعلیم غیر سبزی خوروں کی بھی حمایت کرتی تھی۔ انہوں نے ان دینی عبارتوں سے سبق حاصل کیا جس میں یہ کہا گیا کہ دنیا اصولوں پر مبنی ہے اور سچائی کو برقرار رکھنے کے لیے اصولوں کو سمجھنا ضروری ہے۔

اس طرح سے انہوں نے بچپن سے ہی سچائی کو انتہائی قیمتی سمجھا تھا جو زندگی کے لیے اور متعدد اعمال کے لیے ضروری ہوتا ہے۔

یہ انتہائی افسوسناک بات ہے کہ گاندھی جی پر ملک کی تقسیم کی حمایت کرنے کا الزام عائد کیا گیا۔

جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس کی حمایت کرنے والوں میں معروف شاعر علامہ اقبال اور ہندو سخت گیر نظریے کے حامل ساورکر جیسے افراد شامل تھے جنہوں نے دو قومی نظریے کی تائید کی تھی۔

ملک کی تقسیم کو روکنے کے لیے کیا کبھی سخت گیر ہندؤوں نے ہڑتال کی، کیا ان سے اس بارے میں سوال پوچھا گیا؟

حقیقت تو یہ ہے کہ ملک کی تقسیم کا فیصلہ کرنے والے لوگوں میں ماؤنٹ بیٹن، نہرو، پٹیل اور جناح جیسے رہنما شامل تھے، گاندھی جی اس سے دور تھے اور انہیں صرف اس بات کی اطلاع دی گئی تھی کہ ملک کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا۔

اگر گاندھی جی نے ملک کی تقسیم کے نظریے کی حمایت کی تھی تو پھر انہوں نے برطانوی حکومت سے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان اقتدار کی منتقلی کے موقع پر کیوں غیر حاضر رہنے کا فیصلہ کیا تھا؟

حقیقت تو یہ ہےکہ ایک طرف ہندوستان کو آزادی مل رہی تھی تو دوسری طرف گاندھی جی اس وقت ناؤ کھالی علاقے میں فرقہ وارانہ فسادات کو روکنے کے لیے بھوک ہڑتال پر بیٹھے تھے۔

گاندھی جی نے ان ساری چیزوں کو محسوس کر لیا تھا اور یہی وجہ تھی کہ وہ مایوس تھے اور مسلسل لوگوں سے رواداری، عدم تشدد اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو برقرار رکھنے کی اپیل کر رہے تھے۔

انہوں نے اُن حالات میں ہر ممکن کوشش کی جو ان کے اختیار میں تھی۔ انہوں نے لوگوں پر اخلاقی دباؤ ڈالا کہ وہ فرقہ وارانہ سوچ اور پرتشدد اقدام سے باز رہیں۔

انہوں نے بنگال سے واپسی پر جنوری 1948 میں دہلی میں بھوک ہڑتال کی۔

ان کی یہ بھوک ہڑتال ہندوستان میں رہنے والے مسلمانوں اور پاکستان میں رہنے والے ہندو اور سکھوں کی حمایت میں تھی۔

حالانکہ سخت گیر ہندو ان کے خلاف افواہ پھیلا کر انہیں بدنام کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ وہ یہ افواہ پھیلا رہے تھے کہ وہ بھوک ہڑتال کے ذریعے بھارتی حکومت پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ حکومت پاکستان کو 55 کروڑ روپے دیں جو غیر منقسم بھارت کو معاہدے کے مطابق حاصل ہوئی تھی۔ اس سلسلے میں مسلمانوں اور پاکستان کا رویہ مثبت تھا۔

وہ ایک ایسے شخص تھے جو دونوں ملکوں کے ہندو اور مسلمانوں کے لیے اپنی جان تک قربان کرنے کی خواہش رکھتے تھے۔

کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ گاندھی جی مسلمانوں کے ساتھ سخت الفاظ میں بات نہیں کر تے تھے، جس طرح سے وہ ہندوؤں کے ساتھ بات کرتے تھے، یہی وجہ ہے کہ وہ مسلمانوں کو خوش کرتے تھے جبکہ یہ بات بالکل درست نہیں تھی۔

بھوک ہڑتال کے دوران گاندھی جی نے دورے پر آنے والے قوم پرست مسلمانوں کو اس بات کے لیے راضی کیا کہ وہ پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ غیر اسلامی اور غیر اخلاقی سلوک کی مذمت کریں۔

انہوں نے پاکستان سے درخواست کی کہ اگر وہ ہندوستان میں اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کرنا چاہتی ہے، تو وہ وہاں اقلیتوں کے خلاف ہر طرح کے تشدد کو ختم کرے۔

جب کچھ مسلمان ثبوت کے طور پر زنگ آلود اسلحہ لے کر آئے کہ انہوں نے تشدد کا راستہ چھوڑ دیا ہے، اس امید پر کہ گاندھی جی بھوک ہڑتال چھوڑ دیں گے، گاندھی جی نے انہیں سمجھایا اور کہا کہ وہ اپنے دلوں کو ان کے لے لیے صاف کریں۔

گاندھی کی زبردست شخصیت کی وجہ سے کسی حد تک فرقہ وارانہ تشدد کے رونما ہونے کا اندیشہ بھی تھا۔

ان کا قتل، اس ڈرامائی انداز میں ہوا کہ اس سے تمام طرح کے تشدد رک گئے اور سردار پٹیل کے ذریعے راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ پر پابندی سے بھی مزید مدد ملی۔

لیکن چار دہائیوں بعد بابری مسجد کو ایودھیا میں منہدم کیا گیا جس کے بعد فرقہ وارانہ سیاست ایک بار پھر اپنے اصل رنگ میں سامنے آئی جس کے بعد قومی جذبہ 'فرقہ وارانہ جنون' میں بدل گیا۔

پہلی بار ایک دائیں بازو کی جماعت مکمل فرقہ وارانہ سیاست پر عمل پیرا ہونے کے ساتھ ہی مرکز میں اور ملک کی بیشتر ریاستوں میں مکمل اکثریت کے ساتھ اقتدار میں ہے۔

روز بروز ہونے والے حادثوں میں گائے کا گوشت کھانے کے شک میں ہجومی تشددکے واقعات، سماجی، معاشی اور سیاسی زندگی میں ان کی پسماندگی، دوسرے درجے کے شہریوں جیسا برتاؤ کرنا، یہ ساری چیزیں ہندو شدت پسندوں کی سوچ بن گئی ہے جو کہ جمہوریت کے خیال کے منافی ہے اور اس میں مزید شدت آتی جا رہی ہے جبکہ اس طرح کی ذہن سازی ملک کی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں کی گئی تھی۔ فرقہ وارانہ سیاست نے ہمارے درمیان بدترین صورتحال پیدا کردی ہے۔

ان چیزوں کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ فرقہ واریت کا بیج ہم میں دفن کر دیا گیا ہے جس سے اچھائیاں اور برائیاں دونوں ہی ہمارے درمیان ظاہر ہوتی ہیں۔

فرق صرف اتنا ہے کہ جس ماحول میں ہماری نشو و نما ہوگی، اس سے یہ طے ہوگا کہ کون سی سوچ ہم میں پروان چڑھ رہی ہے۔

خاص طور پر بابری مسجد کی مسماری کے بعد فرقہ وارانہ سیاست نے فرقہ وارانہ سوچ کو ہوا دی اور اس کا غلبہ بڑھنے لگا۔

اُس وقت تک یہ نسل مہاتما گاندھی کے افکار سے متاثر تھی جب تک اس نے مہاتما گاندھی کو اپنے درمیان چلتا پھرتا پایا تھا لیکن اب فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی سوچ اور طرز عمل میں کمی نظر آ رہی ہے۔

مجھے ایک بار جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے ایک شخص نے فرقہ وارانہ ہم آہنگی سے متعلق ایک اجلاس میں مدعو کیا تھا۔ میں نے ان سے کہا کہ اگر وہ مجھے ہندو مذہب کے نمائندے کی حیثیت سے مدعو کر رہے ہیں تو انہیں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ میں ملحد ہوں تو انہوں نے کہا کہ مشورہ دیا کہ وہ اس پروگرام میں شرکت نہ کریں۔

میں نے ان کے ساتھ اس معا ملے پر بحث کی کہ صرف ایک ملحد ہی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے تصور پر عمل کر سکتا ہے کیونکہ اس کے لیے تمام مذاہب یکساں ہیں اور جو جس مذہب کا پیروکار ہوتا ہے تو وہ ہمیشہ اپنے مذہب سے وابستہ رہتا ہے۔

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہم نے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے مسئلے پر کبھی سنجیدگی سے غور نہیں کیا ہے، سوائے اپنے ہونٹوں کو جنبش دینے کے اور یقینا جس حال سے آج ہم دوچار ہیں اس کے ذمہ دار ہم خود ہی ہیں۔

گاندھی جی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے نظریے پر پختہ یقین رکھتے تھے۔ وہ بچپن سے ہی اپنے والد کے ساتھ ساتھ رہے جس کی وجہ سے انہیں اپنے والد کے دوستوں سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا جو الگ الگ مذاہب سے تعلق رکھتے تھے جن میں اسلام اور پارسی مذہب کے ماننے والے بھی شامل تھے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ مسیحی مذہب کے تعلق سے الگ رائے رکھتے تھے چونکہ انہوں نے سنا تھا کہ اس مذہب میں ہندو بھگوان پر نکتہ چینی کی جاتی ہے اور گائے کا گوشت کھانا و شراب نوشی کرنا، ان کے مذہب کا لازمی حصہ ہے۔

انگلینڈ میں جب گاندحی جی کی ملاقات ایک ایسے عیسائی شخص سے ہوئی، جو گوشت اور شراب نوشی سے بالکل دور رہتا تھا، اس شخص نے گاندھی جی کو بائبل پڑھنے کی ترغیب دی تو گاندھی جی نے سنجیدگی سے اس مذہب پر غور کیا پھر جب انہوں نے بائبل کا نیا نسخہ پڑھنا شروع کیا تو خاص طور پر اس خیال سے متاثر ہوئے کہ "اگر کوئی آپ کو دائیں گال پر تھپڑ مارے تو آپ اپنا بائیں گال بھی اسے پیش کر دو'۔

بائبل پڑھنے سے پہلے ہی، انہوں نے مختلف مذہبی کتابوں کے اقتباسات کو پڑھا تھا جس سے انہیں یہ خیال آیا تھا کہ برائی کو برائی سے نہیں بلکہ اچھائی سے ہی ختم کیا جا سکتا ہے۔

انہیں بچپن میں ہی مختلف مذاہب سے روشناس کرایا گیا تھا لیکن بچپن میں پڑھائے گئے سبق کے تعلق سے وہ ہمیشہ پس و پیش میں رہتے تھے، اس کے باوجود انہیں اس بات کا پختہ یقین تھا کہ تمام مذاہب مساوی احترام کے لائق ہیں۔

انہوں نے کم عمر میں ہی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے فروغ دینے کی کوشش شروع کر دی تھی۔

وہ مانو اسمرتی کے مطالعے کے بعد اور بھی زیادہ ملحد ہو گئے جس کی تعلیم غیر سبزی خوروں کی بھی حمایت کرتی تھی۔ انہوں نے ان دینی عبارتوں سے سبق حاصل کیا جس میں یہ کہا گیا کہ دنیا اصولوں پر مبنی ہے اور سچائی کو برقرار رکھنے کے لیے اصولوں کو سمجھنا ضروری ہے۔

اس طرح سے انہوں نے بچپن سے ہی سچائی کو انتہائی قیمتی سمجھا تھا جو زندگی کے لیے اور متعدد اعمال کے لیے ضروری ہوتا ہے۔

یہ انتہائی افسوسناک بات ہے کہ گاندھی جی پر ملک کی تقسیم کی حمایت کرنے کا الزام عائد کیا گیا۔

جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس کی حمایت کرنے والوں میں معروف شاعر علامہ اقبال اور ہندو سخت گیر نظریے کے حامل ساورکر جیسے افراد شامل تھے جنہوں نے دو قومی نظریے کی تائید کی تھی۔

ملک کی تقسیم کو روکنے کے لیے کیا کبھی سخت گیر ہندؤوں نے ہڑتال کی، کیا ان سے اس بارے میں سوال پوچھا گیا؟

حقیقت تو یہ ہے کہ ملک کی تقسیم کا فیصلہ کرنے والے لوگوں میں ماؤنٹ بیٹن، نہرو، پٹیل اور جناح جیسے رہنما شامل تھے، گاندھی جی اس سے دور تھے اور انہیں صرف اس بات کی اطلاع دی گئی تھی کہ ملک کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا۔

اگر گاندھی جی نے ملک کی تقسیم کے نظریے کی حمایت کی تھی تو پھر انہوں نے برطانوی حکومت سے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان اقتدار کی منتقلی کے موقع پر کیوں غیر حاضر رہنے کا فیصلہ کیا تھا؟

حقیقت تو یہ ہےکہ ایک طرف ہندوستان کو آزادی مل رہی تھی تو دوسری طرف گاندھی جی اس وقت ناؤ کھالی علاقے میں فرقہ وارانہ فسادات کو روکنے کے لیے بھوک ہڑتال پر بیٹھے تھے۔

گاندھی جی نے ان ساری چیزوں کو محسوس کر لیا تھا اور یہی وجہ تھی کہ وہ مایوس تھے اور مسلسل لوگوں سے رواداری، عدم تشدد اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو برقرار رکھنے کی اپیل کر رہے تھے۔

انہوں نے اُن حالات میں ہر ممکن کوشش کی جو ان کے اختیار میں تھی۔ انہوں نے لوگوں پر اخلاقی دباؤ ڈالا کہ وہ فرقہ وارانہ سوچ اور پرتشدد اقدام سے باز رہیں۔

انہوں نے بنگال سے واپسی پر جنوری 1948 میں دہلی میں بھوک ہڑتال کی۔

ان کی یہ بھوک ہڑتال ہندوستان میں رہنے والے مسلمانوں اور پاکستان میں رہنے والے ہندو اور سکھوں کی حمایت میں تھی۔

حالانکہ سخت گیر ہندو ان کے خلاف افواہ پھیلا کر انہیں بدنام کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ وہ یہ افواہ پھیلا رہے تھے کہ وہ بھوک ہڑتال کے ذریعے بھارتی حکومت پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ حکومت پاکستان کو 55 کروڑ روپے دیں جو غیر منقسم بھارت کو معاہدے کے مطابق حاصل ہوئی تھی۔ اس سلسلے میں مسلمانوں اور پاکستان کا رویہ مثبت تھا۔

وہ ایک ایسے شخص تھے جو دونوں ملکوں کے ہندو اور مسلمانوں کے لیے اپنی جان تک قربان کرنے کی خواہش رکھتے تھے۔

کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ گاندھی جی مسلمانوں کے ساتھ سخت الفاظ میں بات نہیں کر تے تھے، جس طرح سے وہ ہندوؤں کے ساتھ بات کرتے تھے، یہی وجہ ہے کہ وہ مسلمانوں کو خوش کرتے تھے جبکہ یہ بات بالکل درست نہیں تھی۔

بھوک ہڑتال کے دوران گاندھی جی نے دورے پر آنے والے قوم پرست مسلمانوں کو اس بات کے لیے راضی کیا کہ وہ پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ غیر اسلامی اور غیر اخلاقی سلوک کی مذمت کریں۔

انہوں نے پاکستان سے درخواست کی کہ اگر وہ ہندوستان میں اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کرنا چاہتی ہے، تو وہ وہاں اقلیتوں کے خلاف ہر طرح کے تشدد کو ختم کرے۔

جب کچھ مسلمان ثبوت کے طور پر زنگ آلود اسلحہ لے کر آئے کہ انہوں نے تشدد کا راستہ چھوڑ دیا ہے، اس امید پر کہ گاندھی جی بھوک ہڑتال چھوڑ دیں گے، گاندھی جی نے انہیں سمجھایا اور کہا کہ وہ اپنے دلوں کو ان کے لے لیے صاف کریں۔

گاندھی کی زبردست شخصیت کی وجہ سے کسی حد تک فرقہ وارانہ تشدد کے رونما ہونے کا اندیشہ بھی تھا۔

ان کا قتل، اس ڈرامائی انداز میں ہوا کہ اس سے تمام طرح کے تشدد رک گئے اور سردار پٹیل کے ذریعے راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ پر پابندی سے بھی مزید مدد ملی۔

لیکن چار دہائیوں بعد بابری مسجد کو ایودھیا میں منہدم کیا گیا جس کے بعد فرقہ وارانہ سیاست ایک بار پھر اپنے اصل رنگ میں سامنے آئی جس کے بعد قومی جذبہ 'فرقہ وارانہ جنون' میں بدل گیا۔

پہلی بار ایک دائیں بازو کی جماعت مکمل فرقہ وارانہ سیاست پر عمل پیرا ہونے کے ساتھ ہی مرکز میں اور ملک کی بیشتر ریاستوں میں مکمل اکثریت کے ساتھ اقتدار میں ہے۔

روز بروز ہونے والے حادثوں میں گائے کا گوشت کھانے کے شک میں ہجومی تشددکے واقعات، سماجی، معاشی اور سیاسی زندگی میں ان کی پسماندگی، دوسرے درجے کے شہریوں جیسا برتاؤ کرنا، یہ ساری چیزیں ہندو شدت پسندوں کی سوچ بن گئی ہے جو کہ جمہوریت کے خیال کے منافی ہے اور اس میں مزید شدت آتی جا رہی ہے جبکہ اس طرح کی ذہن سازی ملک کی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں کی گئی تھی۔ فرقہ وارانہ سیاست نے ہمارے درمیان بدترین صورتحال پیدا کردی ہے۔

ان چیزوں کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ فرقہ واریت کا بیج ہم میں دفن کر دیا گیا ہے جس سے اچھائیاں اور برائیاں دونوں ہی ہمارے درمیان ظاہر ہوتی ہیں۔

فرق صرف اتنا ہے کہ جس ماحول میں ہماری نشو و نما ہوگی، اس سے یہ طے ہوگا کہ کون سی سوچ ہم میں پروان چڑھ رہی ہے۔

خاص طور پر بابری مسجد کی مسماری کے بعد فرقہ وارانہ سیاست نے فرقہ وارانہ سوچ کو ہوا دی اور اس کا غلبہ بڑھنے لگا۔

اُس وقت تک یہ نسل مہاتما گاندھی کے افکار سے متاثر تھی جب تک اس نے مہاتما گاندھی کو اپنے درمیان چلتا پھرتا پایا تھا لیکن اب فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی سوچ اور طرز عمل میں کمی نظر آ رہی ہے۔

مجھے ایک بار جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے ایک شخص نے فرقہ وارانہ ہم آہنگی سے متعلق ایک اجلاس میں مدعو کیا تھا۔ میں نے ان سے کہا کہ اگر وہ مجھے ہندو مذہب کے نمائندے کی حیثیت سے مدعو کر رہے ہیں تو انہیں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ میں ملحد ہوں تو انہوں نے کہا کہ مشورہ دیا کہ وہ اس پروگرام میں شرکت نہ کریں۔

میں نے ان کے ساتھ اس معا ملے پر بحث کی کہ صرف ایک ملحد ہی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے تصور پر عمل کر سکتا ہے کیونکہ اس کے لیے تمام مذاہب یکساں ہیں اور جو جس مذہب کا پیروکار ہوتا ہے تو وہ ہمیشہ اپنے مذہب سے وابستہ رہتا ہے۔

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہم نے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے مسئلے پر کبھی سنجیدگی سے غور نہیں کیا ہے، سوائے اپنے ہونٹوں کو جنبش دینے کے اور یقینا جس حال سے آج ہم دوچار ہیں اس کے ذمہ دار ہم خود ہی ہیں۔

Intro:Body:

News


Conclusion:
Last Updated : Sep 27, 2019, 3:17 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.