صنعت کاری اور جدید طرز زندگی کے نتیجے میں ملک میں ایندھن کی ضرورت بڑھتی جارہی ہے۔جبکہ اس کے ساتھ ساتھ ایندھن کے بے تحاشا استعمال کی وجہ سے نت نئے مسائل پیدا ہونے لگے ہیں۔ایندھن کے قدرتی ذرائع بڑی تیزی سے کم ہورہے ہیں ۔
دوسری جانب کاربن گیس کے اخراج کی تباہ کاریاں بھی بڑھ رہی ہیں۔ اس کی وجہ سے لوگوں کی صحت پر مضر اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ہمارے ملک میں ایندھن کے قدرتی ذرائع کی کمی کی وجہ سے ہمیں خام تیل اور کوئلہ کے لئے دوسرے ممالک پر انحصار کرنا پڑھتا ہے۔ اس کے نتیجے میں غیر ملکی زر مبادلہ بڑھ رہا ہے اور ہمیں خطیر رقومات کی ادائیگی کرنی پڑتی ہے۔
بجلی کے ایک سو یونٹ کی پیدا وار کے لئے پچاس سے ساٹھ کلو کوئلہ جلانا پڑتا ہے۔ مالی سال 2018-19 میں بجلی کی پیدا وار کے لئے 62.90کروڑ ٹن کوئلہ جلانا پڑا تھا۔ اس کے نتیجے میں ماحولیات بڑے پیمانے پر آلودہ ہوگیا ،کیونکہ کوئلہ جلانے کی وجہ سے مضر اور آلودہ گیس کا اخراج ہوتا ہے۔ اس صورتحال سے بچنے کے لئے کوئلہ کا استعمال کم سے کم کرنا ہوگا۔جبکہ توانائی کے حصول کے لئے کوئلہ کے بجائے قابل تجدید توانائی کے ذرائع کو اختیار کرنا ہوگا۔
مرکزی اور ریاستی حکومتیں بھارت میں شمسی اور ہوائی توانائی کے صلاحیت بڑھانے کے لئے کوششیں کررہی ہیں۔شمسی توانائی کے حصول کے لئے پلانٹ لگانے میں بہت کم خرچہ آتا ہے ۔ اس سے پیدا ہونے والی بجلی کا فی یونٹ لگ بھگ تین روپے کے خرچے سے پیدا ہوتی ہے۔
ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں ابھی بھارت کو شمسی اور ہوائی توانائی کے شعبے میں بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ایک کلو واٹ شمسی پلانٹ نصب کرنے کے لئے دس مربع میٹر کی جگہ درکار ہوتی ہے۔اراضی کی قلت کے مسئلے سے نمٹنے کے لئے شہروں اور قصبوں میں عمارتوں کی چھتوں پر چھوٹے چھوٹے شمسی بجلی کے پیداواری یونٹس لگائے جاسکتے ہیں، جہاں زیادہ بجلی استعمال ہوتی ہے۔
فی کلوواٹ بجلی کے حصول کے لئے درکار شمسی پینل کی قیمت 52ہزار روپے ہے، جبکہ حکومت صارفین کے لئے تین کلو واٹ تک کے پروجیکٹ پر چالیس فیصد اور تین کلواٹ سے دس کلو واٹ تک کے پروجیکٹ پر بیس فیصد تک کی سبسڈی فراہم کرتی ہے۔
شمسی توانائی اُ مید کی ایک کرن
ایک تخمینے کے مطابق اگر ملک میں 3.8کروڑ عمارتوں میں سے بیس فیصد عمارتوں پر شمسی پلانٹس نصب کئے جائیں گے، تو اس کے نتیجے میں 124گیگا واٹ تک شمسی توانائی پیدا کی جاسکتی ہے۔ اسی تخمینے کے پیش نظر مرکزی حکومت نے سال 2022تک عمارتوں کی چھتوں پر نصب کئے جانے والے شمسی پلانٹس سے چالیس گیگاواٹ شمسی توانائی پیدا کرنے کا ہدف مقرر کیا ہے۔ اس ہدف کو پورا کرنے کے لئے جدید ٹیکنالوجی کو بھی متعارف کرایا گیا ہے۔ لیکن اس شعبے کو فروغ دینے لئے مہارت کو بڑھانا ہوگا اور اس شعبے میں ماہرین کو پیدا کرنا ہوگا۔
دیہات میں بنجر زمینوں پر شمسی توانائی کے حصول کے لئے پلانٹس نصب کرنے کے حوالے سے کسانوں کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔ اس طرح سے بجلی پیدا کرنے اور اسکی ترسیل کرنے کے نتیجے میں بہت پیسہ بچایا جاسکتا ہے۔ حیدر آباد میں راج بھون اور مارری چینا ریڈی انسٹی چیوٹ آف ہیومن ریسو سز ڈیولپمنٹ کی عمارتوں کی چھتوں پر شمسی توانائی کے پلانٹس نصب کئے گئے ہیں۔ بھارت چونکہ ایک پُر تپش خطہ ہے اور یہاں سال بھر سورج کی روشنی میسر ہوتی ہے، اس لئے یہاں بلا خلل شمسی توانائی کا حصول یقینی ہے۔ ہوا کا دباؤ پیدا کرنے والے کارخانوں کے ذریعے ہوائی توانائی بھی پیدا کی جاسکتی ہے۔ تاہم اس طرح کی توانائی کے حصول کا انحصار موسم اور ہوا کے رخ پر ہوتا ہے۔ اس لئے ہوائی توانائی کا بلا خلل حصول ممکن نہیں ۔اس لئے اس توانائی کی پیداوار اور اس کی ڈیمانڈ میں ہمیشہ تفاوت دیکھنے کو ملے گی ۔
بجلی کے ضائع ہوجانے کا علاج یہ ہے کہ ایک جانب قابل تجدید توانائی کو بڑھایا جائے اور دوسری جانب اس کی ترسیل کے عمل کے لئے بہتر آلات کو نصب کیا جائے ۔ بجلی ضائع ہونے سے بچانا ضروری ہے کیونکہ ایک یونٹ کو ضائع ہوجانے سے بچانا ایک یونٹ بجلی پیدا کرنے کے برابر ہے۔
اس تناظر میں مرکزی حکومت نے کئی اقدامات کئے ہیں۔ سال 2001 میں 'انرجی سیونگ ایکٹ' متعارف کرایاگیا۔اس ایکٹ کے دائرے میں لوہے، سیمنٹ، ریلوے، ٹیکسٹائل کی فیکٹریوں اور تھرمل پاؤر پلانٹ کو لایا گیا۔
اس ایکٹ کی رو سے مذکورہ صنعتوں کو سالانہ ایک آڈٹ رپورٹ سامنے لانی ہوگئی، جس سے یہ پتہ چلے کا کہ ان میں ایندھن کی کتنی کھپت ہوجاتی ہے۔ ان معاملات کی نگرانی کے لئے بیرو آف انرجی ایفی شنسی ( بی ای ای) کو قائم کیا گیا ہے۔نئی عمارتوں میں ایندھن کی کھپت کو مقرر کرنے کے لئے انرجی کنزرویشن بلڈنگ کوڈ ( ای سی بی سی ) کو روبہ عمل لایا گیا ہے۔نئی عمارتوں کی تعمیر سے متعلق بھی قوائد و ضوابط مقرر کئے گئے ہیں۔ اس طرح کے قوائد و ضوابط نئی اسپتال عمارتوں، کانفرنس رومز اور کثیر منزلہ سنیما گھروں اور الیکٹرک گاڑیوں پر بھی لاگو ہوں گے۔
الیکٹرک گاڑیوں کو متعارف کرنا ایک ناگزیر اقدام
پیٹرول اور ڈیزل سے چلنے والی گاڑیوں کے نتیجے میں ہوائی آلودگی پیدا ہوجاتی ہے۔ بھارت میں مختلف اقسام کی گاڑیوں کے استعمال کا چلن ہے۔ اس کے علاوہ تخمینے کے مطابق یہاں سالانہ دس لاکھ نئی گاڑیاں سڑکوں پر لائی جاتی ہیں۔اگر یہی صورتحال جاری رہی تو آنے والے وقت میں ماحولیاتی آلودگی کی صورتحال بد سے بدتر ہوتی جائے گی۔ اس کے پیشگی تدارک کے لئے برقی قوت یا ہائیڈروجن سے چلنے والی گاڑیوں کو متعارف کرانا ضروری ہے ۔ اس طرح سے ایندھن کی بھی بچت ہوگی اورغیر ملکی زرمبادلہ کو بھی کافی حد تک بچایا جاسکتا ہے۔
باوجود اس کے حکومت ان مسائل کو حل کرنے کی کوشش کررہی ہے، لیکن مطلوبہ نتائج برآمد نہیں ہورہے ہیں۔ الیکٹر ک گاڑیوں کا مہنگا ہونا، انہیں چارج کرانے کے لئے چارجنگ اسٹیشنوں کی کمی، ان گاڑیوں کا ایک بار چارج کرنے کے بعد طویل مسافت طے نہ ہوپانا اور چارجنگ کے عمل میں زیادہ وقت لگنا، چند ایسی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے ہمارے یہاں الیکٹرک گاڑیوں کا چلن عام نہیں ہوپا رہا ہے۔
ریاستوں کو چاہیے کہ وہ پبلک ٹرانسپورٹ سہولیات کو بہتر بنانے کے لئے الیکٹرک گاڑیوں کے حوالے سے ایسی پالیسیوں کا اعلان کریں، جن کی وجہ سے ان کا استعمال کا رجحان بڑھ جائے ۔ سال 2030 تک پچاس فیصد الیکٹرک گاڑیوں کو چلانے کا ہدف پورا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ حکومت کو ان تمام مسائل کو سمجھنا اور انہیں حل کرنا ضروری ہے۔
جانکاری عام کرنا ضروری
بیرو آف انرجی ایفی شنسی ( بی ای ای ) نے عوام میں توانائی کے بہتر استعمال اور کھپت سے متعلق جانکاری کے لئے نئے طریقے اختیار کرلئے ہیں۔ مرکزی سرکار نے 'اُجالا پروگرام' کے تحت عوام کے لئے مناسب قیمتوں پر 36.1کروڑ ایل ای ڈی بلب، 23.1 لاکھ اعلی صلاحیت کے حامل پنکھے اور 71.61لاکھ ایل ای ڈی ٹیوب لائٹس فراہم کرائے ہیں ۔ اس اقدام کے نتیجے میں بجلی کی بچت یقینی ہوگی ۔
اسی طرح ہوا کی آلودگی کو قابو کرنے کے لئے آلودہ گیس کے اخراج کو کم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ملک بھر میں لگ بھگ 1050بلدیاتی اداروں نے اسٹریٹ لائٹس کو ایل ای ڈیز میں تبدیل کردیا ہے۔اب شمسی پاؤر پلانٹس کو وسیع پیمانے پر لگانے کی ضرورت ہے۔شہروں اور قصبوں میں عمارتوں کے چھتوں پر یہ پلانٹس نصب کرنے کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔
زرعی فضلہ اراضی پر شمسی توانائی کے پلانٹس نصب کرکے ان سے پیدا ہونے والی بجلی کو مقامی سطح پر استعمال کرنے والوں کو فراہم کرنے سے آمدن میں اضافہ ہوگا۔ اس کے علاوہ ہواکے دباؤ سے بجلی پیدا کرنے اور اور ونڈ ملز کو قائم کرنے کو بڑھاوا دینے کی ضرورت ہے۔ ملک میں زیر استعمال 2.1کروڑ الیکٹرک موٹرز کو معیاری اور کم ایندھن کی کھپت کرنے والے موٹرز سے بدل دیا جانا چاہیے۔ الیکٹرک گاڑیوں کا استعمال بڑھانے کے لئے پالیسیاں بنائی جانی چاہئیں۔اسکولوں اور کالج کے نصاب میں 'انرجی سیونگ' کے مضمون کو شامل کیا جانا چاہیے۔اس سے بچوں کو چھوٹی عمر میں ہی توانائی کی اہمیت کا اندازہ ہوجائے گا۔ توانائی کے بچت کے حوالے سے عوام میں جانکاری پیدا کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ ہر کوئی توانائی کی بچت کو اپنی ذمہ داری سمجھ سکے ۔