ETV Bharat / bharat

جنگ آزادی کی یادگار کھنڈرات میں تبدیل

لکھنؤ میں آج بھی نوابی دور کی قدیم عمارتیں اپنے دامن میں تاریخ کو سمیٹے ہوئے ہے۔

author img

By

Published : Apr 14, 2019, 4:11 PM IST

لکھنؤ کا ریزیڈنسی

انہیں میں سے ایک لکھنؤ کا ریزیڈنسی ہے۔

جنگ آزادی کی یادگار کھنڈرات میں تبدیل

لکھنؤ کا ریزیڈنسی بھلے ہی کھنڈر میں تبدیل ہو چکا ہو، لیکن آج بھی تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔

کھنڈارات اپنے پس پشت ایک لمبی تاریخ کو سمیٹے ہوئے ہیں۔ آپ ان کو دیکھ کر باآسانی اسکی خوبصورتی کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔

انہیں میں سے ایک لکھنؤ کا ریزیڈنسی ہے۔

جنگ آزادی کی یادگار کھنڈرات میں تبدیل

لکھنؤ کا ریزیڈنسی بھلے ہی کھنڈر میں تبدیل ہو چکا ہو، لیکن آج بھی تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔

کھنڈارات اپنے پس پشت ایک لمبی تاریخ کو سمیٹے ہوئے ہیں۔ آپ ان کو دیکھ کر باآسانی اسکی خوبصورتی کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔

Intro:لکھنؤ میں آج بھی نوابی دور کی قدیمی عمارتیں اپنے دامن میں تاریخ کو سمیٹے ہوئے ہیں۔ انہی میں سے ایک لکھنؤ کا ریزیڈنسی ہے۔


Body:لکھنؤ کا ریزیڈنسی بھلے ہی کھنڈرات میں تبدیل ہو چکا ہو، لیکن آج بھی تاریخی حامل کا گہوارا ہے۔ کھنڈارات اپنے پس پشت ایک لمبی تاریخ کو سمیٹے ہوئے ہیں۔ آپ ان کو دیکھ کر با آسانی اسکی خوبصورتی کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔

گومتی ندی کے ساحل پر واقع ریذیڈنسی کو بیلی گارد بھی کہا جاتا ہے۔ اس قدیم عمارت کو دیکھنے کے لیے ملک کے تمام گوشوں سے زائرین آتے ہیں۔ ریزیڈنسی فقط ایک عمارت ہی نہیں بلکہ انگریزوں کے خلاف آزادی کی پہلی اہم لڑائیوں کا جاگتا نمونہ ہے۔

ریزیڈنسی کی سنگ بنیاد 1775 میں ہوئی۔ ان دنوں لکھنؤ کو اودھ کے نام سے جانا جاتا تھا۔ نواب آصف الدولہ نے اسے انگریز افسروں کے لیے بنوایا تھا۔ یہ عمارت نواب سعادت علی خاں کے دور میں پایہ تکمیل تک پہنچی۔

بیلی گارڈ گیٹ۔

یہ ریذیڈنسی کا داخلی دروازہ ہے۔ اسکی تعمیر نواب سعادت خان انیسویں صدی میں لکھنؤ کے ریذیڈنٹ کیپٹن بیلی کے تعظیم میں قائم کروایا تھا۔ اسے گارڈ گیٹ اس لئے کہا جاتا ہے، کیونکہ سینک اس گیٹ کے اوپر سے دور دراز تک نظر رکھتے تھے۔

ٹریزری ہاؤس۔

اس عمارت کی تعمیر 1851 میں 16 ہزار 8 سو 97 روپیہ میں ہوا تھا۔ 1857 کے غدر میں اس کا استعمال ان فیلڈ کارتوس بنانے کے کارخانے کے طور پر ہوا تھا، جس کے نشانات آج بھی باقی ہیں۔

رہائش گاہ۔

انگریز افسر اپنے پریوار کے ساتھ اسی بلڈنگ میں رہا کرتے تھے۔ اسی وجہ سے اس کا نام ریزیڈنسی پڑا۔ یہ عمارت تین منزلہ تھی۔

اس کے مشرق میں ایک گیٹ اور پورٹیکو تھا۔ مغربی حصے میں اونچے اونچے ستونوں سے بنا ایک چوڑا برآمدہ تھا، جس کی چھت پر جانے کے لئے گھوماودار زینے تھے۔ اس عمارت میں اونچی اونچی روشن دان تھے۔ جہاں پر اتالوی لوہے کا استعمال مضبوطی کے لیے کیا گیا تھا۔

جنوبی حصے کا استعمال انگریز شدید گرمی سے بچنے کے لیے کرتے تھے۔ جب 1857 میں مجاہدین آزادی نے محاصرہ کر لیا تھا، تب انگریزوں نے اپنے پریوار کے چھوٹے بچوں اور خواتین کو اسی تہ خانہ میں محفوظ رکھا تھا۔

توپ اور گولیوں کے نشانات۔

1857 کے انقلاب میں مجاہدین آزادی اور انگریزوں کے بیچ گولہ باری ہوتی تھی، اس کی نشانات آج بھی ریزیڈنسی کی دیواروں اور مینار میں صاف طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔

اس عمارت میں ایک مینار ہے،جہاں پر بھارتی پرچم شان سے لہرا رہا ہے، لیکن ایک وقت ایسا بھی تھا جب اسی مینار میں انگریزوں کا پرچم لہراتا تھا۔ جسے توپ اور بندوق کے دھماکے سے گرا دیا جاتا تھا لیکن، رات میں انگریز اپنا پرچم دوبارہ سے بلند کردیا کرتے تھے۔

مسجد اور قبرستان۔

ریزیڈنسی کے اندر ہی ایک چھوٹی مسجد بھی ہے، جو کافی خوبصورت ہے۔ اس کے علاوہ میری چرچ اور انگریزوں کا قبرستان بھی احاطے میں موجود ہے۔ حالانکہ میری چرچ اب پوری طرح سے مسمار ہوچکا ہے۔

1857 کے انقلاب میں یہاں پر تقریبا 2000 انگریزی فوج کے افراد، عام لوگ، خواتین اور بچوں کو بنا کسی رسم و رواج کے یہیں پر دفنا دیا گیا تھا۔




Conclusion:لکھنؤ ریزیڈنسی بھلے ہی اب کھنڈرات میں تبدیل ہو چکا ہو، لیکن اسے دیکھنے کے لیے ہزاروں کی تعداد میں لوگ ملک کے گوشوں سے آتے ہیں۔ اس کے علاوہ بیرون ممالک سے بھی لوگ اسے دیکھنے آتے ہیں۔
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.