یاد رہے کہ سنہ 2015 میں بھی چارلی ہیبڈو میگزین نے پیغمبرِ اسلام ﷺ کی شان میں گستاخی کی تھی جس کے بعد اس کے دفتر پر شدت پسندانہ حملہ ہوا تھا۔
اس کارٹون کی اشاعت ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب اس شدت پسندانہ حملے میں مدد کرنے کے الزام میں گرفتار 14 افراد کے خلاف مقدمہ بدھ کے روز سے شروع ہونے جارہا ہے۔ 7 جنوری 2015 کو میگزین کے دفتر پر شدت پسندوں کے حملے میں کچھ مشہور فرانسیسی کارٹونسٹس سمیت 12 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ کچھ دن بعد ہی پیرس میں ایک اور حملے میں پانچ افراد کی ہلاکت ہوئی تھی۔
میگزین کے نئے شمارے کے سرِورق پر درجنوں پرانے کارٹونز ایک بار پھر شائع کیے گئے ہیں، ان کارٹونوں کے بارے میں ایک بہت بڑا تنازع کھڑا ہوا تھا اور اظہارِ رائے کی آزادی کے بارے میں پوری دنیا میں زبردست بحث و مباحثہ ہوا تھا۔ ڈائریکٹر لارینٹ رس نے کارٹونز کی اشاعت کے اداریے میں لکھا 'ہم کبھی بھی سر نہیں جھکائیں گے، ہم کبھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔'
پاکستان نے منگل کو فرانسیسی میگزین کے پیغمبر محمد کے اہانت آمیز کارٹون کو دوبارہ شائع کرنے کے فیصلے کی شدید مذمت کی۔ پاکستان کی وزارت خارجہ کے ترجمان زاہد حفیظ چودھری نے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ 'فرانسیسی میگزین کے فیصلے سے پر امن بقائے باہمی کے عالمی خواب کو نقصان پہنچا ہے اور اس سے معاشرتی اور مذہبی ہم آہنگی کو بھی شدید خطرہ لاحق ہے۔'
ایک اور ٹویٹ میں چودھری نے کہا کہ 'عربوں اور مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنے کے لیے جان بوجھ کر اٹھائے گئے اقدامات کو آزادیٔ اظہار رائے یا پریس کے نام پر جواز نہیں بنایا جا سکتا۔'
شدت پسندانہ حملے میں ہلاک ہونے والے کارٹونسٹ ژاں کبوت (کبو) کا کارٹون بھی چارلی ہیبڈو کے نئے کور پیج کے مرکز میں چھاپا گیا ہے اور میگزین کا عنوان ہے 'یہ سب کچھ صرف اس کے لیے' بدھ کو شدت پسندی کے حملے کا مقدمہ شروع ہوتے ہی یہ نیا ورژن مارکٹ میں دستیاب ہوگا۔ تاہم یہ پہلے ہی آن لائن خریدار تک پہنچ چکا ہے۔
میگزین چارلی ہیبڈو کے نئے سرورق میں حضرت محمد ﷺکے درجنوں پرانے گستاخانہ خاکے شائع کیے گئے ہیں، یہ کارٹون پہلی بار 2005 میں ڈینش اخبار گیلینڈ پوسٹن نے شائع کیے تھے اور 2006 میں انہیں فرانسیسی میگزین چارلی ہیبڈو نے شائع کیا تھا جس کے بعد پوری مسلم دنیا میں ایک طوفان برپا ہوگیا تھا۔
میگزین کے اداریے میں کہا گیا ہے کہ سنہ 2015 میں حملے کے بعد لوگ پیغمبر کے ان کارٹونز کو شائع کرنے کا مطالبہ کرتے رہے ہیں، میگزین کے مدیر نے لکھا 'ہم نے ہمیشہ ایسا کرنے سے انکار کیا ہے لیکن اس لیے نہیں کہ اس پر پابندی عائد ہے۔' قانون ہمیں یہ کرنے کی اجازت دیتا ہے، لیکن ایسا کرنے کے پیچھے کوئی اچھی وجہ ہونی چاہیے تھی، ایسی کوئی وجہ جو سمجھ میں آجائے اور جو لوگوں میں اچھی بحث کا آغاز کر سکے۔ جنوری 2015 میں ہونے والے شدت پسندانہ حملوں کے مقدمے کی سماعت شروع ہونے سے پہلے ہمیں ان کارٹونز کو شائع کرنے کی ضرورت تھی۔
فرانسیسی کونسل آف مسلم ورشپ (سی ایف سی ایم) کے صدر محمد موسوی نے تشدد کی مذمت کی اور لوگوں سے اپیل کی کہ وہ ان کارٹونز کو نظرانداز کریں۔
موسوی نے کہا کہ 'کارٹون بنانے کی آزادی ہر ایک کو ہے اور انہیں پسند کرنے یا ناپسند کرنے کی بھی، کوئی بھی چیز تشدد کا جواز پیش نہیں کر سکتی ہے۔'
اسی دوران فرانسیسی صدر ایمانوئل میکخواں نے منگل کے روز کہا کہ 'وہ طنزیہ میگزین میں کارٹون کو دوبارہ شائع کرنے کے فیصلے پر کوئی تبصرہ نہیں کریں گے۔'
میکخواں نے کہا کہ 'فرانس میں ہمیشہ آزادیٔ اظہارِ رائے رہی ہے۔ '
انہوں نے کہا کہ 'یہ مناسب نہیں ہے کہ صدر کسی صحافی یا نیوز روم کے ادارتی انتخاب پر کسی بھی طرح کا ردعمل دے، کبھی نہیں کیوںکہ ہمارے یہاں آزاد صحافت سب سے اوپر ہے۔'
تاہم انہوں نے کہا کہ 'فرانسیسی شہریوں کو ایک دوسرے کے ساتھ احترام کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور نفرت انگیز تقاریر سے گریز کرنا چاہیے۔'