ETV Bharat / bharat

'مودی کے راحت پیکیج میں کسانوں کے حصے میں کچھ نہیں'

کانگریس پارٹی نے الزام لگایا ہے کہ کورونا بحران کے درمیان وزیراعظم نریندر مودی نے ملک میں معاشی سرگرمیاں شروع کرنے کے لئے بیس لاکھ کروڑ روپے کا جو پیکیج اعلان کیا ہے اس میں کسان کے لئے کچھ نہیں ہے۔

farmers neglected in modi govt says congress party
مودی کے راحت پیکج میں کسانوں کے حصے میں کچھ نہیں
author img

By

Published : May 15, 2020, 10:38 PM IST

ان کے لئے یہ صرف جملہ پیکج ہی ثابت ہورہا ہے۔

کانگریس کے میڈیا محکمہ کے انچارج رندیپ سرجے والا نے جمعہ کو یہاں نامہ نگاروں کی کانفرنس میں کہا ہے کہ مسٹر مودی نے دو دن پہلے جس معاشی پیکج کو ملک کو کرونا بحران کے درمیان اعلان کیا اس میں دعوی کیا گیا ہے کہ اس سے کسان بھی کھڑا ہوسکے گا اور کھیتی باڑی کی اس کی پریشانی ختم ہوجائے گی لیکن یہ اعلان کسان کے لئے صرف ’جملہ پیکج‘ ہی ثابت ہواہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ پیکج ’وعدوں کا سبزباغ‘ کے علاوہ کچھ نہیں ہے اس میں کسان کی کوئی مدد نہیں ہورہی ہے۔

یہ پیکج حقیقت سے بہت دور ہے اس نے ملک کے کسان کو مایوس کیا ہے۔

لاک ڈاؤن کی وجہ سے بے حال کسان کو حکومت مرہم لگانے کی جگہ زخم دے رہی ہے اوراس کو قرض کے جنجال میں دھکیل رہی ہے۔

اس اعلان سے یہ بھی واضح ہوگیا ہے کہ مودی حکومت نے کسان کی تکلیف سمجھتی ہے اورنہ ہی کھیتی کے مسائل کا اسے علم ہے۔

ترجمان نے بتایا ہے کہ اس حکومت کو کھیتی باڑی کی کوئی سمجھ نہیں ہے اس لئے کھیتی کے نام پر کسان کو سبزباغ دکھارہی ہے اور حقیقت میں اس کے حصے میں کچھ نہیں آرہا ہے۔

انہوں نے بتایاکہ 2016 کے کسان سروے کے مطابق ملک میں 14.64 کروڑ کسان ہیں جن میں سے حکومت نے ابھی تک 8.22 کروڑ کسانوں کو ہی کسان سمان ندھی کے لئے منتخب کیا ہے۔ یعنی 6.42 کروڑ کسان تو اس میں شامل ہی نہیں ہوپائے۔

مودی حکومت کہتی ہے کہ انہیں 6,000 روپے فی برس دیا جارہا ہے ۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ مرکزی حکومت نے کھیتی کی لاگت قیمت گزشتہ پانچ برسوں میں تقریبا 15,000 فی ہیکٹر اضافہ کردیا ہے۔

سرجے والا نے کہا ہے کہ وزیر خزانہ کہتی ہیں کہ ملک میں تین کروڑ چھوٹے کسان یعنی ان کے پاس ایک ہیکٹرسے بھی کم زمین ہے، ان کو چار لاکھ کروڑ روپے کا فصل لون مہیا کروانے کا نظم کیا گیا ہے لیکن شاید ان کو پتہ ہی نہیں ہے کہ ملک میں 2016 میں ہوئی زرعی مردم شماری کے مطابق دس کروڑ مارجینل کسان ہیں جو ایک ہیکٹر سے کم زمین کاشت کرتے ہیں تو پھر سات کروڑ مارجینل کسانوں کا کیا ہوگا؟

انہوں نے کہا کہ کسان کی مجموعی فصل پیداوار کا حکومت مشکل سے 25-30 فیصد ہی کم ازکم امدادی قیمت (ایم ایس پی) پر خریدتی ہے۔

اس میں بھی خاص طور سے گیہوں اور دھان کی ہی خریداری کی جاتی ہے کیونکہ اسے راشن نظام کے ذریعہ سے تقسیم کیا جاتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 2019-20 میں ربیع اور خریف کی مجموعی پیداوار 26.9 کروڑ ٹن ہوا جب کہ حکومت نے محض 7.19 کروڑ ٹن اناج ہی خریدا۔

اس کا مطلب ہے کہ فصل کسانوں نے بازار میں بیچی لیکن بحران کے وجہ سے بازار تو موجود نہیں تھے تو اس صورت میں کسان کو یقینا زبردست بحران کا سامنا کرنا پڑا۔

ترجمان نے کہا کہ سچائی یہ ہے کہ اس پیکج سے کسان اور کھیت مزدور کے حصے میں کچھ نہیں آیا اور مرکزی حکومت کا یہ پیکج صرف ’جملہ پیکج‘ ثابت ہوا۔

ان کے لئے یہ صرف جملہ پیکج ہی ثابت ہورہا ہے۔

کانگریس کے میڈیا محکمہ کے انچارج رندیپ سرجے والا نے جمعہ کو یہاں نامہ نگاروں کی کانفرنس میں کہا ہے کہ مسٹر مودی نے دو دن پہلے جس معاشی پیکج کو ملک کو کرونا بحران کے درمیان اعلان کیا اس میں دعوی کیا گیا ہے کہ اس سے کسان بھی کھڑا ہوسکے گا اور کھیتی باڑی کی اس کی پریشانی ختم ہوجائے گی لیکن یہ اعلان کسان کے لئے صرف ’جملہ پیکج‘ ہی ثابت ہواہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ پیکج ’وعدوں کا سبزباغ‘ کے علاوہ کچھ نہیں ہے اس میں کسان کی کوئی مدد نہیں ہورہی ہے۔

یہ پیکج حقیقت سے بہت دور ہے اس نے ملک کے کسان کو مایوس کیا ہے۔

لاک ڈاؤن کی وجہ سے بے حال کسان کو حکومت مرہم لگانے کی جگہ زخم دے رہی ہے اوراس کو قرض کے جنجال میں دھکیل رہی ہے۔

اس اعلان سے یہ بھی واضح ہوگیا ہے کہ مودی حکومت نے کسان کی تکلیف سمجھتی ہے اورنہ ہی کھیتی کے مسائل کا اسے علم ہے۔

ترجمان نے بتایا ہے کہ اس حکومت کو کھیتی باڑی کی کوئی سمجھ نہیں ہے اس لئے کھیتی کے نام پر کسان کو سبزباغ دکھارہی ہے اور حقیقت میں اس کے حصے میں کچھ نہیں آرہا ہے۔

انہوں نے بتایاکہ 2016 کے کسان سروے کے مطابق ملک میں 14.64 کروڑ کسان ہیں جن میں سے حکومت نے ابھی تک 8.22 کروڑ کسانوں کو ہی کسان سمان ندھی کے لئے منتخب کیا ہے۔ یعنی 6.42 کروڑ کسان تو اس میں شامل ہی نہیں ہوپائے۔

مودی حکومت کہتی ہے کہ انہیں 6,000 روپے فی برس دیا جارہا ہے ۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ مرکزی حکومت نے کھیتی کی لاگت قیمت گزشتہ پانچ برسوں میں تقریبا 15,000 فی ہیکٹر اضافہ کردیا ہے۔

سرجے والا نے کہا ہے کہ وزیر خزانہ کہتی ہیں کہ ملک میں تین کروڑ چھوٹے کسان یعنی ان کے پاس ایک ہیکٹرسے بھی کم زمین ہے، ان کو چار لاکھ کروڑ روپے کا فصل لون مہیا کروانے کا نظم کیا گیا ہے لیکن شاید ان کو پتہ ہی نہیں ہے کہ ملک میں 2016 میں ہوئی زرعی مردم شماری کے مطابق دس کروڑ مارجینل کسان ہیں جو ایک ہیکٹر سے کم زمین کاشت کرتے ہیں تو پھر سات کروڑ مارجینل کسانوں کا کیا ہوگا؟

انہوں نے کہا کہ کسان کی مجموعی فصل پیداوار کا حکومت مشکل سے 25-30 فیصد ہی کم ازکم امدادی قیمت (ایم ایس پی) پر خریدتی ہے۔

اس میں بھی خاص طور سے گیہوں اور دھان کی ہی خریداری کی جاتی ہے کیونکہ اسے راشن نظام کے ذریعہ سے تقسیم کیا جاتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 2019-20 میں ربیع اور خریف کی مجموعی پیداوار 26.9 کروڑ ٹن ہوا جب کہ حکومت نے محض 7.19 کروڑ ٹن اناج ہی خریدا۔

اس کا مطلب ہے کہ فصل کسانوں نے بازار میں بیچی لیکن بحران کے وجہ سے بازار تو موجود نہیں تھے تو اس صورت میں کسان کو یقینا زبردست بحران کا سامنا کرنا پڑا۔

ترجمان نے کہا کہ سچائی یہ ہے کہ اس پیکج سے کسان اور کھیت مزدور کے حصے میں کچھ نہیں آیا اور مرکزی حکومت کا یہ پیکج صرف ’جملہ پیکج‘ ثابت ہوا۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.