اُپیندر رابھا ہیں مغربی آسام کے ضلع گولاپارہ کے کسان ہیں، اُپیندر آسام میں کالے چاول کی کاشت کی روایت کو آگے بڑھارہے ہیں۔ وہ اپنی جدید تکنیک کے لیے بھی جانے جاتے ہیں۔
اُپیندر کو سنہ 2011 میں زرعی سائنس سینٹر سے ایک کلو کالے چاول کے بیج ملے تھے اس سے انہوں نے پہلے سال میں 150 گرام دھان کی کاشت کی، اس کے اگلے سال 48 کلو چاول کی پیداوار کی اور اب وہ 800 ایکڑ اراضی پر کالے چاول کی کاشتکاری کرتے ہیں۔
کالے چاول میں غذائیت کی مقدار زیادہ ہونے کی وجہ سے مغربی ممالک میں اس کی مانگ غیر متوقع طور پر بڑھ گئی ہے۔ اس سے متاثر ہوکر اُپیندر اور ان کے ساتھی کاشتکار بہتر کوالیٹی کے ساتھ اس مشہور کالے چاول کو برآمد کرتے ہیں۔
سفید چاول کی بہ نسبت کالے چاول میں زیادہ غذائیت ہوتی ہے۔ یہ دوسرے چاولوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ انٹی آکسیڈینٹ اور پروٹین مہیا کرتا ہے نیز وزن کم کرنے میں بھی مددگار ہوتا ہے۔
کالا چاول زیادہ ریشے دار ہوتا ہے اور بعض قسم کے کینسر سے بچانے میں مدد دیتا ہے جبکہ ذیابطیس کے مریضوں کے لیے بھی مفید ہے۔
قدیم چین میں کالے چاول کو شاہی درجہ حاصل تھا ۔ اس کے ذائقہ اور غذائیت کی وجہ سے صرف شاہی خاندان کے افراد ہی اسے کھاتے تھے۔
اپیندر کی خدمات کے اعتراف میں محکمہ زراعت نےاس خاص کالے چاول کو 'اُپیندر رائس' کا نام دیا ہے۔
اُپیندر کامیابی کے ساتھ بہت سے مقامی کاشتکاروں کے لیے گیم چینجر اور ایک بہترین مثال بنے ہوئے ہیں۔ ان کی کہانی بھارت اور دنیا کے دیگر حصوں کے کسانوں کی حوصلہ افزائی کرسکتی ہے۔