حسرت جے پوری کا اصل نام اقبال حسین تھا لیکن انہیں حسرت جے پوری کے نام سے کافی مقبولیت ملی۔
حسرت کی پڑھائی جے پور میں ہوئی، لڑکپن کے دور سے ہی شاعری کرنے لگے، ان کے دادا فدا حسین شاعر تھے اور ان سے ہی انہوں نے شاعری کا ہنر سیکھا۔ جب حسرت کو محبت ہوئی تو انھوں نے محبت نامہ(پریم پتر) بھی لکھا۔ بعد میں اس خط کی شاعری 'میرا پریم پتر پڑھ کر کہ تم ناراض نہ ہونا' کو سنکر جئے کشن نے موسیقی دیکر فلم سنگم کا نغمہ بنایا جو بہت مشہور ہوا۔
حسرت کے کچھ رومانی شعر :
وہ اپنے چہرے میں سو آفتاب رکھتے ہیں
اسی لئے تو وہ رخ پے نقاب رکھتے ہیں
وہ پاس بیٹھے تو آتی ہے دلبرا خوشبو
وہ اپنے ہونٹوں پہ کھلتے گلاب رکھتے ہیں
حسرت 18 سال کی عمر میں روزگار کی تلاش میں ممبئی جا پہنچے، کچھ دن کپڑا مل میں کام کیا، اس کے علاوہ بھی انہوں نے کچھ اور کاروبار کیے اور آخر میں بس کنڈکٹر کی ملازمت اختیار کر لی۔
دوران ملازمت وہ مشاعروں میں بھی شامل ہونے لگے، سادہ زبان میں شاعری کرنے والے حسرت کو ایک مشاعرہ میں پرتھوی راج کپور نے سنا اور انھوں نے حسرت کو اپنے دفتر میں بلایا۔
راج کپور اپنی ہدایت کاری میں بن رہی فلم برسات کے لیے نغمہ نگار کی تلاش میں تھے اور شیلندر کو وہ اِپٹا کی تقریب میں سن چکے تھے۔ راج کپور نے حسرت سے ان کا کلام سنا اور پھر شنکر جے کشن، شیلندر، حسرت اور راج کپور کی ایک ٹیم بن گئی۔
راج کپور کی ہدایتکاری میں بنی پہلی فلم برسات (1949) سے شروعات کر اس ٹیم نے ہندی سنیما کو ڈھیروں یادگار گیت دیے، اس فلم میں حسرت نے پہلا فلمی نغمہ 'جیا بے قرار ہے، چھائی بہار ہے' لکھا۔
اس وقت فلموں میں فلم کے نام پر مبنی نغمے یعنی ٹائٹل سانگ شامل کرنے کا چلن تھا۔
حسرت ٹائٹل سانگ لکھنے میں ماہر تھے۔ ان کے لکھے کچھ مشہور ٹائٹل سانگ میں، رات اور دن دیا جلے (رات اور دن)، گمنام ہے کوئی (گمنام)، رخ سے ذرا نقاب ہٹا دو میرے حضور (میرے حضور)، این ایوننگ اِن پیرس (این ایوننگ اِن پیرس)، کون ہے جو سپنوں میں آیا، کون ہے جو دل میں سمایا، لو جھک گیا آسماں بھی، عشق میرا رنگ لایا (جھک گیا آسماں)، دیوانہ مجھ کو لوگ کہیں (دیوانہ)، تیرے گھر کے سامنے اک گھر بناؤں گا (تیرے گھر کے سامنے)، میں ہوں خوش رنگ حنا (حنا) شامل ہیں۔
اپنے 40 سال کے فلمی کریئر میں حسرت جے پوری نے 350 سے زائد فلموں کے لیے تقریباً 2000 گیت لکھے۔
حسرت جے پوری کو فلم ’سورج‘ کے نغمہ ’بہاروں پھول برساؤ میرا محبوب آیا ہے‘ اور پھر فلم ’انداز‘ کے نغمہ ’زندگی ایک سفر ہے سہانہ‘ کے لیے، دو مرتبہ فلم فیئر ایوارڈ دیا گیا۔
مکیش کمار کے لیے حسرت نے کئی نایاب نغمے لکھے جس میں، چھوڑ گئے بالم مجھے ہائے اکیلا چھوڑ گئے (برسات)، ہم تم سے محبت کر کے صنم روتے بھی رہے (آوارہ)، آنسو بھری ہیں یہ جیون کی راہیں کوئی ان سے کہہ دے (پرورش)، دنیا بنانے والے کیا تیرے من میں سمائی (تیسری قسم)، جانے کہاں گئے وہ دن (میرا نام جوکر) شامل ہیں۔
شیلندر اور جے کشن کی موت کے بعد وہ بہت تنہا محسوس کرنے لگے اور راج کپور کی موت کے بعد تو ان کی حالت بغیر پروں والے پرندے جیسی ہو گئی۔ 17 ستمبر سنہ 1999 کو ان کا انتقال ہوا۔ لیکن (1970) میں حسرت نے ایک نغمہ لکھا جو ہمیشہ ان کی یاد دلاتا رہے گا۔
تم مجھے یوں بھلا نہ پاؤ گے
جب کبھی بھی سنو گے گیت مرے سنگ سنگ تم بھی گنگناؤ گے