پہلے پہلے تو یہ دعویٰ سامنے آیا کہ الکوہل کے زیادہ استعمال سے بھی اس وائرس کو ختم کیا جا سکتا ہے، جس کے بعد ایران میں لوگوں نے اس وائرس سے بچنے کے لیے بے انتہا شراب پینی شروع کی۔ یہاں تک کہ شراب زہریلی ہونے کے سبب تقریبا پانچ سو افراد جان بحق ہوئے۔
بعد میں افواہ کے طور پر یہ بات سامنے آئی کہ آئس کریم کے استعمال سے دور رہ کر اس وائرس سے بچا جا سکتاہے حتی کہ اس افواہ کو اس قدر سوشل میڈیا اور دیگر ذریعوں سے وائرل کیا گیا کہ آخر میں یونیسیف کو کہنا پڑا کہ یہ باتیں درست نہیں ہیں بلکہ یہ صرف ایک افواہ ہے۔
بھارت میں بعض نے گوموتر کو بھی اس کے لیے کافی فائدہ مند اور کورونا سے نجات پانے کا سب سے آسان اور کامیاب نسخہ بتایا لیکن بعض لوگوں کی طبیعت نے اسے پینے اور اسے صحیح ماننےسے صاف طور پر انکار کر دیا۔
گلی محلوں میں جراثیم مارنے کے لیے استعمال کیے جانے والے بلیچنگ پاؤڈر کے تعلق سے بھی افواہیں اڑیں کہ ان کے استعمال سے یہ وائرس پوری طرح ختم ہوسکتا ہے، جس کے بعد لوگوں نے بلا ضرورت ہی اس کا استعمال شروع کر دیا۔
لیکن ان افواہوں کے ساتھ جو سب سے زیادہ لوگوں کے دلوں میں جگہ بنا سکی وہ پانی پینے کی افواہ ہے جس پر آج بھی لوگ اس یقین اور اعتماد سے پانی پی رہے ہیں کی کہ وائرس خدا نخواستہ اگر ان کے قریب آگیا یا سانس کی نالی میں چلا گیا تو زیادہ پانی پی کر اسے معدے میں بھیجا جا سکتا ہے، جہاں تیزاب اور حدت کے سبب وہ خود بخود ہلاک ہو جا ئیگا۔
'لندن سکول آف ہائیجین اینڈ ٹروپیکل میڈیسن کی ماہرِ وبائی امراض کلپنا سباپتھی کہتی ہیں کہ 'یہ اس قدر سادہ بات ہے کہ مجھے سمجھ نہیں آ رہا کہ اسے کیسے بیان کروں'۔
انہوں نے کہا کہ 'ہمیں انفیکشن عموماً تب لگتا ہے جب ہزاروں یا لاکھوں جراثیم لگتے ہیں۔ ان میں سے کچھ کو معدے تک پہنچانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا'۔آپ نے سارے ذرات کو پانی سے معدے میں پہنچا دیا ہوگا۔ تب تک وہ آپ کے ناک میں ویسے ہی پہنچ چکے ہوں گے۔ یہ طریقہ کوئی صحیح طریقہ نہیں ہے۔ اگر وائرس آپ کے سانس کے راستے تک نہیں بھی پہنچتا تو وہ آپ کے جسم میں کئی اور طریقوں سے بھی داخل ہو سکتا ہے۔کوئی شخص اپنی ان انگلیوں کو جن پر وائرس لگا ہو منہ کے قریب لے جانے سے متاثر ہو سکتا ہے تو آنکھ یا ناک کو انگلیاں لگانے سے کیوں متاثر نہیں ہو گا۔'