ETV Bharat / bharat

'سوشانت سنگھ کا آخری ٹویٹ ان کی خود کشی کی عکاسی کرتا ہے'

author img

By

Published : Jun 15, 2020, 9:39 AM IST

ہر طرح کی مادی سہولتوں سے مالا مال ہونے کے باوجود ایسی کون سی کمی تھی جس کی وجہ سے سوشانت کو تکلیف ہو رہی تھی اور انہوں نے اپنی زندگی کا خاتمہ کیا؟

'سوشانت سنگھ کا آخری ٹویٹ ان کی خود کشی عکاسی کرتا ہے'
'سوشانت سنگھ کا آخری ٹویٹ ان کی خود کشی عکاسی کرتا ہے'

سوشانت سنگھ کی آخری فلم چھچھورے ہے، جس میں انہوں نے اپنے بیٹے کو خود کشی کرنے سے باز رکھنے، افسردگی سے (ڈپریشن) سے باہر نکالنے کے لیے اپنے کالج کے دوستوں کے ساتھ مل کر اور اپنے کالج کے زمانے کی چھیچھورے پنتی کی کہانیاں سناتے نظر آتے ہیں، لیکن وہ دوسروں کو سبق دیتے کر خود سبق پر عمل پیرا نہیں ہو سکے۔

انہوں نے خود کشی کرکے بالی ووڈ سمیت پورے ملک کے لوگوں کو حیرت میں ڈال دیا، خود وزیر اعظم نے بھی ٹویٹ کرکے اس واقعے پر حیرت کا اظہار کیا۔

'سوشانت سنگھ کا آخری ٹویٹ ان کی خود کشی عکاسی کرتا ہے'

ہر طرح کی مادی سہولتوں سے مالا مال ہونے کے باوجود ایسی کون سی کمی تھی جس کی وجہ سے سوشانت کو تکلیف ہو رہی تھی جس کی وجہ سے اس نے اپنی زندگی کا خاتمہ کیا؟ معروف معالج اور ہارٹ کیئر فاؤنڈیشن کے صدر ڈاکٹر کے کے اگروال کہتے ہیں کہ ان دنوں سوشل میڈیا لوگوں کی زندگی کا آئینہ بن گیا ہے، آپ کیا سوچ رہے ہیں اور آپ کیا کرنے جارہے ہیں یہ سب وہاں سے معلوم ہوجاتا ہے، ان کا کہنا تھا کہ اگر سوشانت سنگھ راجپوت کا آخری ٹویٹ دیکھا جائے تو یہ واضح ہوجاتا ہے کہ وہ شدید افسردگی میں تھے، ان کی خود کشی کے رجحانات واضح طور پر نظر آرہا تھا۔

شاید اس لیے ممکن ہو سکتا ہے کہ ان کے کچھ دوست انہیں سمجھانے گئے ہوں لیکن ان کا ڈپریشن عروج پر پہنچ گیا تھا، جہاں سے انسان ہر طرح کی دنیای غلامی سے آزاد ہونا چاہتا ہے۔

ڈاکٹر اگروال بتاتے ہیں کہ جب آپ کے دوستوں اور خاندان کے افراد یا آپ کے کسی جاننے والے میں سے کسی کے سلوک میں کسی قسم کی عجیب و غریب تبدیلیاں دیکھنے کو ملتی ہیں، تو آپ کو محتاط رہنا چاہیے، ان کی سوشل میڈیا سرگرمیوں پر نگاہ رکھیں، جیسے ہی کوئی گہری فلسفیانہ باتیں کرتا ہے، فورا ہی مشاورت کریں، یہ خود کشی کی طرف پہلا قدم ہوتا ہے، اسے یہاں ہی روکیں۔

ڈاکٹر اگروال کہتے ہیں کہ لاک ڈاؤن میں تنہائی ہے، لوگ نہیں مل رہے کام نہیں کررہے ہیں، جو پہلے سے ہی ڈپریشن کے شکار ہیں ان کا ڈپریشن مزید بڑھ جائے گا، جن لوگوں میں جنونی مجبوری رجحانات ہیں ان میں بھی اضافہ ہوگا، تو ایسی صورت میں جسمانی فاصلہ رکھیں، معاشرتی فاصلہ نہیں۔

'اگر آپ معاشرتی اور جذباتی فاصلہ برقرار رکھیں گے تو ڈپریشن میں مزید اضافہ ہوگا اور پھر خود کشی کے رجحانات بھی بڑھ جائیں گے، افسردگی نہ ہونے کے لیے معاشرتی ہونا ضروری ہے، ایسی بات کریں کہ افسردگی نہ رہے'۔

دہلی کے واحد مینٹل اسپتال ایہباس کے ڈائریکٹر اور معروف ماہر نفسیات ڈاکٹر نیمش دیسائی کا کہنا ہے کہ آج کی مصروف ترین اور بھاگم بھاگ زندگی میں افسردہ ہونا کوئی نئی بات نہیں ہے، لوگ اسے بہت آسانی کے ساتھ نظرانداز کرتے ہیں، اور یہی غلطی ہے، وہ کسی بد نما داغ (اسٹگما) سے ڈرتے ہیں کہ اگر وہ کسی اور کو کہتے ہیں تو وہ انہیں دیوانہ یا ذہنی طور پر کمزور سمجھیں گے۔

دراصل ڈپریشن کے لیے مدد طلب کرنا ہمت کا کام ہوتا ہے، یہ ایک ذہنی بے بسی لاچارگی ہے، اس سے نکلنے کے لیے کسی کو اپنی ذہنی حالت سے باہر آنا ہوگا، سوشانت ایک بہت اچھے اداکار تھے، ان کی ذہنی بے بسی اس قدر بڑھ چکی تھی کہ ساری دنیاوی چیزیں ان کے سامنے چھوٹی ہوگئیں، وہ کامیابی، شہرت اور دولت سے بھر پور تھے، کم عمری میں ہی بڑی کامیابی حاصل کرلی تھی، وہ اسے سنبھال نہیں سکے'۔

سوشانت سنگھ کی آخری فلم چھچھورے ہے، جس میں انہوں نے اپنے بیٹے کو خود کشی کرنے سے باز رکھنے، افسردگی سے (ڈپریشن) سے باہر نکالنے کے لیے اپنے کالج کے دوستوں کے ساتھ مل کر اور اپنے کالج کے زمانے کی چھیچھورے پنتی کی کہانیاں سناتے نظر آتے ہیں، لیکن وہ دوسروں کو سبق دیتے کر خود سبق پر عمل پیرا نہیں ہو سکے۔

انہوں نے خود کشی کرکے بالی ووڈ سمیت پورے ملک کے لوگوں کو حیرت میں ڈال دیا، خود وزیر اعظم نے بھی ٹویٹ کرکے اس واقعے پر حیرت کا اظہار کیا۔

'سوشانت سنگھ کا آخری ٹویٹ ان کی خود کشی عکاسی کرتا ہے'

ہر طرح کی مادی سہولتوں سے مالا مال ہونے کے باوجود ایسی کون سی کمی تھی جس کی وجہ سے سوشانت کو تکلیف ہو رہی تھی جس کی وجہ سے اس نے اپنی زندگی کا خاتمہ کیا؟ معروف معالج اور ہارٹ کیئر فاؤنڈیشن کے صدر ڈاکٹر کے کے اگروال کہتے ہیں کہ ان دنوں سوشل میڈیا لوگوں کی زندگی کا آئینہ بن گیا ہے، آپ کیا سوچ رہے ہیں اور آپ کیا کرنے جارہے ہیں یہ سب وہاں سے معلوم ہوجاتا ہے، ان کا کہنا تھا کہ اگر سوشانت سنگھ راجپوت کا آخری ٹویٹ دیکھا جائے تو یہ واضح ہوجاتا ہے کہ وہ شدید افسردگی میں تھے، ان کی خود کشی کے رجحانات واضح طور پر نظر آرہا تھا۔

شاید اس لیے ممکن ہو سکتا ہے کہ ان کے کچھ دوست انہیں سمجھانے گئے ہوں لیکن ان کا ڈپریشن عروج پر پہنچ گیا تھا، جہاں سے انسان ہر طرح کی دنیای غلامی سے آزاد ہونا چاہتا ہے۔

ڈاکٹر اگروال بتاتے ہیں کہ جب آپ کے دوستوں اور خاندان کے افراد یا آپ کے کسی جاننے والے میں سے کسی کے سلوک میں کسی قسم کی عجیب و غریب تبدیلیاں دیکھنے کو ملتی ہیں، تو آپ کو محتاط رہنا چاہیے، ان کی سوشل میڈیا سرگرمیوں پر نگاہ رکھیں، جیسے ہی کوئی گہری فلسفیانہ باتیں کرتا ہے، فورا ہی مشاورت کریں، یہ خود کشی کی طرف پہلا قدم ہوتا ہے، اسے یہاں ہی روکیں۔

ڈاکٹر اگروال کہتے ہیں کہ لاک ڈاؤن میں تنہائی ہے، لوگ نہیں مل رہے کام نہیں کررہے ہیں، جو پہلے سے ہی ڈپریشن کے شکار ہیں ان کا ڈپریشن مزید بڑھ جائے گا، جن لوگوں میں جنونی مجبوری رجحانات ہیں ان میں بھی اضافہ ہوگا، تو ایسی صورت میں جسمانی فاصلہ رکھیں، معاشرتی فاصلہ نہیں۔

'اگر آپ معاشرتی اور جذباتی فاصلہ برقرار رکھیں گے تو ڈپریشن میں مزید اضافہ ہوگا اور پھر خود کشی کے رجحانات بھی بڑھ جائیں گے، افسردگی نہ ہونے کے لیے معاشرتی ہونا ضروری ہے، ایسی بات کریں کہ افسردگی نہ رہے'۔

دہلی کے واحد مینٹل اسپتال ایہباس کے ڈائریکٹر اور معروف ماہر نفسیات ڈاکٹر نیمش دیسائی کا کہنا ہے کہ آج کی مصروف ترین اور بھاگم بھاگ زندگی میں افسردہ ہونا کوئی نئی بات نہیں ہے، لوگ اسے بہت آسانی کے ساتھ نظرانداز کرتے ہیں، اور یہی غلطی ہے، وہ کسی بد نما داغ (اسٹگما) سے ڈرتے ہیں کہ اگر وہ کسی اور کو کہتے ہیں تو وہ انہیں دیوانہ یا ذہنی طور پر کمزور سمجھیں گے۔

دراصل ڈپریشن کے لیے مدد طلب کرنا ہمت کا کام ہوتا ہے، یہ ایک ذہنی بے بسی لاچارگی ہے، اس سے نکلنے کے لیے کسی کو اپنی ذہنی حالت سے باہر آنا ہوگا، سوشانت ایک بہت اچھے اداکار تھے، ان کی ذہنی بے بسی اس قدر بڑھ چکی تھی کہ ساری دنیاوی چیزیں ان کے سامنے چھوٹی ہوگئیں، وہ کامیابی، شہرت اور دولت سے بھر پور تھے، کم عمری میں ہی بڑی کامیابی حاصل کرلی تھی، وہ اسے سنبھال نہیں سکے'۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.