سرکردہ دفاعی تجزیہ نگار وکرم جیت سنگھ کا کہنا ہے کہ بھارت اور چین کے درمیان تعلقات اب ماضی کی طرح نہیں ہوسکتے۔ ای ٹی وی بھارت اردو کے مدیر خورشید وانی کے ساتھ ایک خصوصی بات چیت میں انہوں نے لائن آف ایکچول کنٹرول کی سیاچن کاری، زیادہ اونچائی والے علاقوں میں محاذ آرائی اور گلوان وادی پر چینی قبضے کے بعد کی صورتحال پر تبصرہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ گلوان وادی میں چینی افواج کا زبردستی قبضہ اس بات کا غماز ہے کہ چین نے جنوبی ایشیا کے اپنے جیو اسٹریٹجک تصور میں تبدیلی لائی ہے اور بھارت کا درجہ ایک حریف سے بڑھاکر دشمن کی سطح پر لایا ہے۔ ان کے مطابق چین نے بھارت کے ساتھ مخاصمت اختیار کرنے سے قبل، اقتصادی اور سیاسی محاذ پر ہونے والے نقصانات کا تخمینہ لگایا ہوگا۔
کرگل کے محاذ جنگ سے رپورٹنگ کا امتیاز رکھنے والے سرکردہ صحافی کے مطابق بھارت کی سیاسی اور فوجی قیادت چین کے عزائم کو سمجھنے سے قاصر رہی۔
انہوں نے کہا کہ ماضی میں چینی افواج مقامی سطح پر دراندازی کرکے کچھ دیر کے بعد واپس چلی جاتی تھی لیکن اس بار کئی جگہوں پر در اندازی کی گئی اور سرحد کے نزدیکی علاقوں میں فوجی جماؤ بڑھایا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ بھارت کے جیو پولیٹیکل اور جیو اسٹریٹجک نظریات میں آئی تبدیلی نے چین کو جنوبی ایشیا کے بارے میں اپنے نظریات تبدیل کرنے پر مجبور کیا ہے۔ ان کے مطابق چین اب زیر قبضہ علاقوں سے واپس جانے کیلئے تیار نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ بھارت اور چین کے درمیان فوجی طاقت میں گہرا عدم توازن ہےخاص طور پر غیر روایتی جنگی سازو سامان مثلاً کروز اور بیلسٹک میزائلوں کے بارے میں چین کو برتری حاصل ہے۔ بری، بحری اور ہوائی افواج کے علاوہ چین تین معکوسی (ورچول) محاذوں پر بھی جنگ لڑنے کی اہلیت رکھتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ گلوان وادی میں ہوئے تصادم کے بعد بھارت کیلئے اس خطے میں فوجی جماؤ میں اضافہ کرنا ناگزیر ہوگیا ہے۔ ان کے مطابق مشرقی لداخ سے ہوتے ہوئے ہماچل پردیش، اتراکھنڈ، سکم اور ارونا چل پردیش تک چین کے ساتھ مختلف سرحدیں اب تناؤ زدہ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جنوبی ایشیا کے بارے میں چین کے تصورات میں تبدیلی کیلئے اگرچہ کئی عوامل کارفرما ہیں لیکن ان میں سب سے اہم حکومت ہند کا وہ یکطرفہ فیصلہ ہے جس اس نے جموں و کشمیر اور لداخ کی آئینی حیثیت تبدیل کرنے کیلئے گزشتہ برس اگست میں اٹھایا۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کے گلگت اور بلتستان کے بارے میں بیانات کو بھی چینی قیادت نے نظر انداز نہیں کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس آئینی تبدیلی کے بعد چینی قیادت نے جو بیانات دئے تھے وہ صاف اور غیر مبہم تھے لیکن بھارتی قیادت نے انہیں سمجھنے کی کوشش نہیں کی۔ انہوں نے کہا کہ چین نے بالاکوٹ میں بھاری فضائیہ کے حملے کے وقت بھی یہ بیان دیا تھا کہ وہ کسی ملک کی حدود میں داخل ہونے کا روادار نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ گلوان وادی کی صورتحال سے خطے کی صورتحال میں بڑے پیمانے پر تبدیلی آسکتی ہے۔ چین اور پاکستان کے درمیان تعلقات مزید پختہ ہونگے جبکہ بھارت کا جھکاؤ امریکہ کی جانب مزید بڑھے گا۔ انہوں نے کہا کہ بھارت میں موجودہ قوم پرست حکومت کو پاکستان کے ساتھ نفرت ہے اور وہ نظریاتی طور امریکہ کے نزدیک ہونے کو ترجیح دیتی ہے۔
وکرم جیت سنگھ کے مطابق بھارت فوجی جوان اس لئے گلوان وادی میں ہتھیاروں کے بغیر چینی افواج سے نبرد آزما ہوئے کیونکہ وہ سنہ 1994کے تحریری معاہدے کے تابع تھے۔ اس معاہدے کے مطابق ایل اے سی پر کوئی بھی فوج دو کلومیٹر کے احاطے میں ہتھیاروں کا استعمال نہیں کرسکتی اور اگر سڑک کی تعمیر یا کسی اور تعمیری مقصد کیلئے بارود کا استعمال ناگزیر ہو تو اس کے لئے بھی پانچ روز پہلے اجازت لازمی ہے۔
انہوں نے کہا کہ بھارت کی سیاسی اور فوجی قیادت کو اس بات کا ادراک ہے کہ چین اس وقت جنگ نہیں چاہتا ہے لیکن اگر ایسی صورتحال ابھرے گی تو وہ جنگ میں کودنے سے تامل بھی نہیں کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ گلوان وادی اور پنگانگ زو جھیل میں چینی فوج کو نکال باہر کرنا اب مشکل ہے کیونکہ ایسا مئی کے اوائل میں ہی ہوسکتا تھا جب اس دراندازی کو دریافت کیا گیا تھا۔ وکرم جیت سنگھ کے مطابق اس فوج کو عملی طور نکالنے کے لئے توپوں کا استعمال لازمی ہے اور اگر ایسا ہوتا ہے تو جنگی صورتحال پیدا ہوسکتی ہے جسے کنٹرول میں رکھنا شاید ممکن نہیں ہوگا۔
مزید پڑھیں:'چین کو بھارت کی علاقائی خودمختاری کا احترام کرنا چاہیے'
انہوں نے اس بات پر تعجب کا اظہار کیا کہ کسی بھی ملک نے گلوان وادی میں ہوئی کارروائی کی مذمت نہیں کی۔