ہمہ جہت صلاحیت کے مالک گرودت کا شمار بھارت کے عظیم اداکار، ہدایتکار اور فلمساز کے طور پر ہوتا تھا، ان کا تعلق منگلور کے ایک سرسوت برھمن خاندان سے تھا۔
گرودت کی پیدائش نو جولائی 1925 کو بنگلور میں ہوئی تھی تاہم انہوں نے تعلیم کولکاتا میں حاصل کی۔ گرودت بیس برس کی عمر میں ایک اسسٹنٹ ڈائرکٹر کے طور پر فلمی دنیا میں داخل ہو چکے تھے، جہاں انہیں گیان مکرجی اور امیہ چکروتی جیسے ہدایتکاروں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔
اکثر لوگ فلم 'باز' کوگرو دت کی پہلی فلم سمجھتے ہیں لیکن گرو دت 'باز' سے پہلے تین فلموں سے وابستہ رہے۔ یہ فلمیں 'لاکھا رانی' سنہ 1945، 'ہم ایک ہی' سنی 1946 اور 'گرلز سکول' سنہ 1949 تھیں۔
گرو دت نے اپنے فلمی کیرئر کا آغاز ایک ڈانس ڈائریکٹر کی حیثیت سے مشہور پربھات سٹوڈیو میں فلم لاکھا رانی سے کیا۔
اُنہوں نے سنہ 1942 سے 1944 تک اُستاد اُدھے شنکر کی المورا ڈانس اکیڈمی میں تربیت حاصل کی تھی۔
بطور اداکار انہوں نے کُل 17 فلموں میں کام کیا جن میں سے آٹھ فلمیں انہوں نے خود ڈائریکٹ کیں اور یہی فلمیں اُن کی سب سے بہترین فِلمیں بھی ثابت ہوئیں۔
ان کی مشہور فلموں میں 'صاحب، بیوی اور غلام' اور 'چودہویں کا چاند' شامل ہیں جو انہوں نے خود ڈائریکٹ نہیں کیں۔
اگر گرو دت کی چار فلموں کو بے مثال کہا جائے تو غلط نہ ہوگا، ان میں دو مزاحیہ اور دو سنجیدہ فلمیں شامل ہیں۔ گرو دت کے کام کرنے کا طریقہ کچھ ایسا تھا کہ وہ پہلے ایک کامیڈی بناتے اور اُس کے فوراً بعد ایک سنجیدہ فلم بنانا شروع کر دیتے۔
ایک طرف جہاں محبوب خان، بمل رائے اورراج کپور کی فِلموں نے دیوداس کے امیج کی صورت میں اس دور کے بھارتی نوجوان کی ایک الگ اور نئی تصویر پیش کی تو وہیں دوسری جانب گُرو دت نے اُس مایوس سنجیدہ ہیرو کوایک ذاتی اور سیاسی پہچان دی۔
ایک ایسے وقت میں جب بھارتی سنیما ایک نئے دور کی تلاش میں تھا،گرو دت نے اپنی فلموں میں بہت سے مشکل مسائل اٹھا کر لاکھوں نوجوانوں کے دلوں میں جگہ بنائی۔
اِن سوالوں کے جواب شاید خود گرو دت کو آخر تک نہ مل سکے لیکن اِن سوالوں سے گرو دت نے بھارتی سِنیما کی ایک ایسی الگ تاریخ لکھی جس کا اثر آج بھی بھارتی سِنیما پر نظر آتا ہے۔
گُرو دت کو اُردو سے محبت تھی، اُن کی فِلموں میں ایسی اردو شاعری کی بہت سی مثالیں موجود ہیں جس کا جنم بمبئی کی فلم انڈسٹری میں ہوا اِور جس کا اثر آج بھی فلم انڈسٹری پر صاف نظر آتا ہے۔
سنہ 1951 بمبئی کی فلمی صنعت کا ایک زریں برس تھا، اُس برس دلیپ کمار اور نرگس کی دیدار اور ہلچل، مدھوبالا اور دلیپ کمار کی ترانہ، ہدایتکار ضیا سرحدی کی ہم لوگ اور راج کپور کی عالمی شہرت یافتہ فلم آوارہ بھی ریلیز ہوئی تھی۔
اتنے سخت مقابلے کے باوجود گرُو دت کی فلم بازی نے اچھا خاصا بزنس کیا، اور پچیس برس کی عمر میں گرُو دت کو ایک مستند ہدایتکار کے طور پر تسلیم کر لیا گیا۔
گرُو دت نے فلم جال، آر پار، پیاسا، کاغذ کے پھول اور مسٹر اینڈ مسز 55 جیسی فلمیں پیش کیں جسے آج اتنا وقت گزر جانے کے بعد بھی جب شائقین دیکھتے ہیں تو وہ بالکل نئی فلمیں معلوم پڑتی ہیں۔
ان کی فلم 'آر پار' اور 'مسٹر اینڈ مسز 55 کا شمار بھارت کی یادگار مزاحیہ فلموں میں کیا جاتا ہے جبکہ 'پیاسا' اور 'کاغذ کے پھول' نہ صرف بھارتی بلکہ عالمی سنیما کی دو نہایت ہی اہم فِلمیں مانی جاتی ہیں۔
سنہ 1956 میں گرودت کی فلم سی آئی ڈی منظرِ عام پر آئی، بازی اور آر پار کی طرح یہ بھی جرم و سزا کی ایک کہانی تھی لیکن اس میں گرُو دت نے وحیدہ رحمان کو متعارف کرایا اور ہدایتکار کی ذاتی زندگی میں یہ واقع ایک انتہائی اہم موڑ ثابت ہوا۔
سنہ 1953 میں گرودت نے اس زمانے کی معروف گلوکارہ گیتا دت سے شادی کر لی تھی، اُن کے دو بیٹے بھی پیدا ہوچکے تھے اور زندگی بڑی خوشگوار گزر رہی تھی لیکن وحیدہ رحمان گرُو دت کی فلمی زندگی میں داخل ہوئی تو ان کی گھریلو زندگی میں ایک طوفان آگیا اور وہ گیتادت سے الگ مکان لے کر رہنے لگے۔
وحیدہ نے جب دیکھا کہ گرودت کی تمام پریشانیوں کا الزام ان پر آرہا ہے تو وہ بھی کنارہ کش ہوگئی اور یوں گرودت بالکل تنہا رہ گئے۔ بیوی اور محبوبہ کے دو پاٹوں کے درمیان پِس کر رہنے والے گرودت نے اپنی زندگی کو شراب میں ڈبودیا۔
گرُو دت نے کاغذ کے پھول بڑے دل سے بنائی تھی اور اس کا مہورت دہلی میں نائب صدر ڈاکٹر رادھا کرشنن کے ہاتھوں انجام پایا لیکن یہ فلم بری طرح فلاپ ثابت ہوئی۔
اس ناکامی نے گرودت کو توڑ کے رکھ دیا، بطور ہدایتکار ان کی خود اعتمادی خاک میں مل گئی، حتٰی کہ جب فلم 'صاحب بی بی اور غلام' بن کر تیار ہوئی تو اس پر بطور ہدایتکار گرُو دت نے اپنا نام بھی نہیں دیا تھا۔
نو اکتوبر سنہ 1964 کی شام، گرُو دت کی بیشتر فلموں کے رائٹر اور ذاتی دوست ابرار علوی ان کے پاس تھے اور کھانے پینے کی محفل کے بعد رات کے ایک بجے تک اُن کی گپ شپ ہوتی رہی۔
باتوں باتوں میں اس پر بھی بحث ہوئی کہ بعض لوگ خود کشی کے لیے بڑی تعداد میں نیند کی گولیاں کھا لیتے ہیں لیکن پھر بھی موت دغا دے جاتی ہے اور انھیں ہسپتال لے جاکر بچا لیا جاتا ہے۔
چنانچہ دونوں نے ہنسی مذاق میں اس بات پر اتفاق کیا کہ گولیاں پھانکنے کی بجائے انھیں باریک پیس کر پانی میں حل کر لینا چاہیے تاکہ فوری اثر ہو۔
رات کے ایک بجے کے قریب گرُو دت نے کہا کہ مجھے نیند آرہی ہے اورابرار علوی اپنے گھر چلے گئے۔
دس اکتوبر کا سنہ 1964 کا دِن تھا کیوں کہ گرودت کے چاہنے والوں کے لیے بڑا مایوس کن دن تھا، گرودت نیند کی گولیاں کھاکر ابدی نیند سورہے تھے۔
ان کی خودکشی کی خبر جنگل کی آگ بن کر ہر طرف پھیل گئی اور اگلے روز سب اخباروں کی سرخیوں میں گرُو دت موجود تھے۔
مشہور فلمی میگزین فلم فیئر نے گرُو دت کی یاد میں خصوصی شمارا نکالا جس میں کیفی اعظمی نے گرُو دت کو خراجِ عقیدت پیش کیا۔
رہنے کو سدا دہر میں آتا نہیں کوئی
تم جیسے گئے ایسے بھی جاتا نہیں کوئی
گرُو دت کو زندگی میں جو شہرت نہ مل سکی وہ موت کے بعد اس کا مقدر بنی اور سنہ 1970 کی دہائی میں ان کی فلمیں پھر سے مقبول ہونے لگیں تاہم سنہ 1980 میں ایک فرانسیسی محقق نے اُس پر اپنی ریسرچ شائع کی تو گرُو دت کا نام دنیا کے کونے کونے میں پہنچ گیا۔
سنہ 80 کے عشرے میں گرودت کی فلموں کے میلے پہلے فرانس میں اور پھر یورپ کے دیگر شہروں میں منعقد ہوئے۔
مشہور فِلم سکالر لاورا ملوی نے 'سائٹ اینڈ ساونڈ' میگزین میں گرو دت کی فلم 'پیاسا' کو دُنیا کی دس بہترین فلموں میں شمار کیا۔