ETV Bharat / bharat

'کانگریس میں محض قیادت کا مسئلہ نہیں ہے' - senior journalist amit agnihotri

سینیئر صحافی امت اگنی ہوتری نے کانگریس پارٹی کے درمیان قیادت کے سلسلے میں حالیہ تبدیلیوں اور دیگر معاملات کے بارے میں سینیئر کانگریسی رہنما منی شنکر ایئر سے خصوصی بات چیت کی۔

mani shankar interview
منی شنکر ایئر ای ٹی وی بھارت کی منی شنکر ایئر سے خاص بات چیت
author img

By

Published : Sep 4, 2020, 9:40 AM IST

Updated : Sep 4, 2020, 9:52 AM IST

کانگریس پارٹی میں حالیہ دنوں اندرونی طور پر بہت سی باتیں موضوع گفتگو رہی ہیں۔ کانگریس پارٹی میں صدارت اور دیگر معاملات کے سلسلے میں سینیئر کانگریسی رہنما منی شنکر ایئر نے خصوصی بات چیت کے دونوں کہا ہے کہ 'کانگریس مکت بھارت' کا نظریہ تبھی کامیاب ہوگا، جب کانگریس گاندھی خاندان کی قیادت سے مکت ہوگی'۔

انھوں نے کہا ہے کہ 'ہمیں اپنا کچھ وقت قیادت کے سلسلے میں صرف کرنے کی ضرورت ہے۔ مجھے امید ہے کہ پارٹی 23 سینیئر رہنماؤں کے ذریعہ پیش کردہ کچھ تجاویز کو قبول کرے گی'۔

ویڈیو

کانگریس پارٹی کے اندر قیادت کا بحران نظر آ رہا ہے، آخر یہ پتہ لگانا ضروری ہے کہ اصل مسئلہ کیا ہے؟ منی شنکر ایئر نے اس سوال کے جواب میں کہا کہ 'یہ محض قیادت کا مسئلہ نہیں ہے، پارٹی میں یہ حالات اچانک سے بنے ہیں۔ یہاں تک کہ 23 سینیئر رہنماؤں (جنہوں نے حال ہی میں سونیا گاندھی کو خط لکھ کر اپنی ناپسندیدگی ظاہر کی تھی) نے بھی یہ تجویز نہیں پیش کی ہے کہ کانگریس کے مسائل کا بنیادی حل قیادت کی تبدیلی میں ہے۔ حالانکہ اگر وہ یہ مانتے ہیں کہ قیادت ہی مسئلے کی جڑ ہے تو جب آل انڈیا کانگریس کمیٹی کا اجلاس منعقد ہوا تب انہیں کھڑے ہوکر اپنی ناراضگی ظاہر کرنی چاہیے'۔

انھوں نے کہا ہے کہ 'میں صرف امید کرسکتا ہوں کہ وہ (جیتیندر پرساد) پریشان نہیں ہوں گے جنہوں نے سونیا گاندھی کے 9400 ووٹوں کے مقابلے میں 94 ووٹ حاصل کیے تھے۔ مسئلہ کچھ اور ہے'۔

آزادی کی تحریک کے دوران اور آزادی سے قبل 20 برسوں میں جو معاشرتی گروپس کانگریس کے ساتھ تھے، انہوں نے سنہ 1967 کے بعد سے ہی اس قومی پارٹی سے الگ ہوکر اپنی منزل مقصود تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں'۔

'سنہ 1990 میں انتخابات کے بعد بہت سے پسماندہ طبقوں نے خود کے الگ الگ گروپ کو وجود میں لایا اور پھر پسماندہ طبقات کے پارٹی میں سب سے آگے یادو ابھر کر سامنے آئے اور شیڈول کاسٹ میں جادو سب سے آگے تھے'۔

'بابری مسجد کے انہدام (1992) کے بعد ایک طرح کی الجھن پیدا ہوگئی اور مسلمانوں نے کانگریس کو چھوڑ دیا ہے۔ قیادت کو مسئلے کی نظر سے دیکھنا درست نہیں ہوگا۔ یہ مسئلہ بہت گہرا ہے اور میری نظر میں اس مسئلے کو صرف ان سماجی گروہوں کو کانگریس میں شامل کر حل نہیں کیا جاسکتا ہے، بلکہ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ علاقائی، ذات یا برادری کی بنیاد پر تشکیل دی گئی جماعتوں کو اسی طرح رکھنا جیسے وہ ہیں، یہ زیادہ ضروری ہے'۔

'کیرالا ماڈل پر کانگریس کے ساتھ اتحاد میں آنے کے لیے جہاں گذشتہ انتخابات کے فورا بعد ہی اتحاد کا فیصلہ کیا گیا۔ ان جماعتوں کی اپنی پہچان ہوتی ہے لیکن اتحاد کے اقتدار میں آنے کی صورت انہیں اپنی پہچان کو چھوڑنا پڑتا ہے۔ آپ کو اتحاد کی ضرورت کیوں ہے؟ کیا یہ علاقائی پارٹیاں کانگریس کی چھاؤں میں کام کرنا چاہیں گی؟ ایک اتحاد ہی بھارتیہ جنتا پارٹی کو شکست دینے کا واحد قابل عمل طریقہ ہے'۔

'میں تجویز کررہا ہوں کہ علاقائی جماعتیں کانگریس کے ساتھ مل کر کام کریں۔ اگر ہم مل کر انتخابات لڑتے ہیں تو ہم فاتح بن سکتے ہیں'۔

'اگر ہم ان کو یہ کہنا شروع کردیں کہ آپ ہماری قیادت میں انتخابات لڑیں تو اس بات کے امکانات نہیں ہے کہ وہ اس پر راضی ہوجائیں گے۔ میرے خیال سے وزیراعظم کے امیدوار کے بارے میں پوچھنا نہیں چاہیے۔ اگر انتخابات کے بعد وزیراعظم کا چہرہ سامنا آنا ہی ہے تو یہ ٹھیک ہے، لیکن ابھی اس بات پر بحث کرنے کا وقت نہیں کہ وزیراعظم کون ہوگا'۔

'میرے خیال میں 2024 میں بی جے پی کا مقابلہ کرنے کے لئے ہمیں کیرالہ ماڈل کے آل انڈیا متحدہ جمہوری محاذ کی ضرورت ہے۔ گزشتہ دو قومی انتخابات میں پارٹی نے حزب مخالف لیڈر کا عہدہ حاصل کرنے کے لئے لوک سبھا میں کم سے کم 10 فیصد نشستیں بھی حاصل کرنے میں ناکامیاب رہیں یقینا یہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے'۔

ایسا وقت بھی آیا ہے، جب ہمارے پاس کوئی حکمت عملی نہیں تھی۔ میرے آبائی ریاست تمل ناڈو میں 1967 سے ہم اقتدار میں نہیں آئے ہیں اور اگلے 600 سال تک وہاں ہم اقتدار میں نہیں آئیں گے، لیکن تمل ناڈو کا کوئی گاؤں ایسا نہیں ہے جہاں کوئی کانگریس کی حمایت کرنے کو تیار نہ ہو۔ اسی نے ہمیں ڈی ایم کے اور اے آئی اے ڈی ایم کے مابین ایک مستحکم کردار ادا کرنے کا موقع فراہم کرے گا'۔

'جب میں 1991 میں پارلیمنٹ میں آیا تو اے آئی اے ڈی ایم کے ساتھ ہمارے اتحاد نے تمل ناڈو کی تمام 39 پارلیمانی نشستیں جیت لیں۔ پارلیمانی سیاست میں تدبیر پائی جاتی ہے۔ ہمیں جاننا چاہئے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں اور معاشرتی گروہوں کو واپس حاصل کرنے کی کیا تدبیر ہوسکتی ہے؟'۔

'یہ ایک طویل مدتی حل ہے۔ ابھی کے لئے کیا کانگریس کو منتخب صدر کی ضرورت ہے؟ اگر موجودہ قیادت جزوی امور میں خود کو زیادہ سے زیادہ وقف کرنے کے قابل ہو جائے تو یہ اور بھی بہتر ہوگا۔ راہل گاندھی نے کانگریس کو متبادل تلاش کرنے کا ہر موقع فراہم کیا۔ انہوں نے اس عہدے سے ہٹتے ہوئے کہا کہ میں قیادت چھوڑ رہا ہوں اور میں اپنی ماں (سونیا گاندھی) یا بہن (پریانکا گاندھی واڈرا) کو بھی اقتدار سنبھالنے کی اجازت نہیں دوں گا، لیکن کانگریس میں کوئی بھی امیدوار کانگریس کی قیادت کرنے کے لئے امیدوار کے طور پر آگے آنے کے لئے تیار نہیں ہے'۔

'بی جے پی کا ہدف ہے کہ بھارت کو کانگریس مکت بنایا جائے اور وہ تبھی کامیاب ہوں گے جب کانگریس گاندھی سے مکت ہوگا۔ پارٹی کو مضبوط بنانے کے بارے میں کیا خیال ہے؟میرے ذہن میں یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے کہ تینوں گاندھیوں میں سے ایک کو قیادت کرنا چاہیے یا نہیں۔ انہوں نے بار بار ایسا کہا ہے کہ وہ پارٹی میں موجود ہے۔ ہم کسی شخص کو قیادت سنبھالنے کے لیے دباؤ کیسے ڈال سکتے ہیں'۔

'بحیثیت پارٹی ہمیں یہ پختہ عزم کرنے کی ضرورت ہے کہ ہمارا واحد دشمن بی جے پی ہے'۔

داخلی انتخابات کرانے کے بارے میں کیا خیال ہے؟ اس پر انھوں نے کہا ہے کہ 'سابق وزیراعظم راجیو گاندھی 1990 سے یہ بات کہہ رہے تھے اور راہل 2007 سے یہ کہہ رہے ہیں۔ یہاں تک کہ انہوں نے بھارتی یوتھ کانگریس اور نیشنل اسٹوڈنٹس یونین آف انڈیا میں بھی ایسا کرنے کی ضرورت ہے'

کانگریسی رہنما منی شنکر ایئر نے آخر میں کہا ہے کہ 'مجھے امید ہے کہ پارٹی 23 سینئر رہنماؤں کے ذریعہ پیش کردہ کچھ تجاویز کو قبول کرے گی'۔

کانگریس پارٹی میں حالیہ دنوں اندرونی طور پر بہت سی باتیں موضوع گفتگو رہی ہیں۔ کانگریس پارٹی میں صدارت اور دیگر معاملات کے سلسلے میں سینیئر کانگریسی رہنما منی شنکر ایئر نے خصوصی بات چیت کے دونوں کہا ہے کہ 'کانگریس مکت بھارت' کا نظریہ تبھی کامیاب ہوگا، جب کانگریس گاندھی خاندان کی قیادت سے مکت ہوگی'۔

انھوں نے کہا ہے کہ 'ہمیں اپنا کچھ وقت قیادت کے سلسلے میں صرف کرنے کی ضرورت ہے۔ مجھے امید ہے کہ پارٹی 23 سینیئر رہنماؤں کے ذریعہ پیش کردہ کچھ تجاویز کو قبول کرے گی'۔

ویڈیو

کانگریس پارٹی کے اندر قیادت کا بحران نظر آ رہا ہے، آخر یہ پتہ لگانا ضروری ہے کہ اصل مسئلہ کیا ہے؟ منی شنکر ایئر نے اس سوال کے جواب میں کہا کہ 'یہ محض قیادت کا مسئلہ نہیں ہے، پارٹی میں یہ حالات اچانک سے بنے ہیں۔ یہاں تک کہ 23 سینیئر رہنماؤں (جنہوں نے حال ہی میں سونیا گاندھی کو خط لکھ کر اپنی ناپسندیدگی ظاہر کی تھی) نے بھی یہ تجویز نہیں پیش کی ہے کہ کانگریس کے مسائل کا بنیادی حل قیادت کی تبدیلی میں ہے۔ حالانکہ اگر وہ یہ مانتے ہیں کہ قیادت ہی مسئلے کی جڑ ہے تو جب آل انڈیا کانگریس کمیٹی کا اجلاس منعقد ہوا تب انہیں کھڑے ہوکر اپنی ناراضگی ظاہر کرنی چاہیے'۔

انھوں نے کہا ہے کہ 'میں صرف امید کرسکتا ہوں کہ وہ (جیتیندر پرساد) پریشان نہیں ہوں گے جنہوں نے سونیا گاندھی کے 9400 ووٹوں کے مقابلے میں 94 ووٹ حاصل کیے تھے۔ مسئلہ کچھ اور ہے'۔

آزادی کی تحریک کے دوران اور آزادی سے قبل 20 برسوں میں جو معاشرتی گروپس کانگریس کے ساتھ تھے، انہوں نے سنہ 1967 کے بعد سے ہی اس قومی پارٹی سے الگ ہوکر اپنی منزل مقصود تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں'۔

'سنہ 1990 میں انتخابات کے بعد بہت سے پسماندہ طبقوں نے خود کے الگ الگ گروپ کو وجود میں لایا اور پھر پسماندہ طبقات کے پارٹی میں سب سے آگے یادو ابھر کر سامنے آئے اور شیڈول کاسٹ میں جادو سب سے آگے تھے'۔

'بابری مسجد کے انہدام (1992) کے بعد ایک طرح کی الجھن پیدا ہوگئی اور مسلمانوں نے کانگریس کو چھوڑ دیا ہے۔ قیادت کو مسئلے کی نظر سے دیکھنا درست نہیں ہوگا۔ یہ مسئلہ بہت گہرا ہے اور میری نظر میں اس مسئلے کو صرف ان سماجی گروہوں کو کانگریس میں شامل کر حل نہیں کیا جاسکتا ہے، بلکہ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ علاقائی، ذات یا برادری کی بنیاد پر تشکیل دی گئی جماعتوں کو اسی طرح رکھنا جیسے وہ ہیں، یہ زیادہ ضروری ہے'۔

'کیرالا ماڈل پر کانگریس کے ساتھ اتحاد میں آنے کے لیے جہاں گذشتہ انتخابات کے فورا بعد ہی اتحاد کا فیصلہ کیا گیا۔ ان جماعتوں کی اپنی پہچان ہوتی ہے لیکن اتحاد کے اقتدار میں آنے کی صورت انہیں اپنی پہچان کو چھوڑنا پڑتا ہے۔ آپ کو اتحاد کی ضرورت کیوں ہے؟ کیا یہ علاقائی پارٹیاں کانگریس کی چھاؤں میں کام کرنا چاہیں گی؟ ایک اتحاد ہی بھارتیہ جنتا پارٹی کو شکست دینے کا واحد قابل عمل طریقہ ہے'۔

'میں تجویز کررہا ہوں کہ علاقائی جماعتیں کانگریس کے ساتھ مل کر کام کریں۔ اگر ہم مل کر انتخابات لڑتے ہیں تو ہم فاتح بن سکتے ہیں'۔

'اگر ہم ان کو یہ کہنا شروع کردیں کہ آپ ہماری قیادت میں انتخابات لڑیں تو اس بات کے امکانات نہیں ہے کہ وہ اس پر راضی ہوجائیں گے۔ میرے خیال سے وزیراعظم کے امیدوار کے بارے میں پوچھنا نہیں چاہیے۔ اگر انتخابات کے بعد وزیراعظم کا چہرہ سامنا آنا ہی ہے تو یہ ٹھیک ہے، لیکن ابھی اس بات پر بحث کرنے کا وقت نہیں کہ وزیراعظم کون ہوگا'۔

'میرے خیال میں 2024 میں بی جے پی کا مقابلہ کرنے کے لئے ہمیں کیرالہ ماڈل کے آل انڈیا متحدہ جمہوری محاذ کی ضرورت ہے۔ گزشتہ دو قومی انتخابات میں پارٹی نے حزب مخالف لیڈر کا عہدہ حاصل کرنے کے لئے لوک سبھا میں کم سے کم 10 فیصد نشستیں بھی حاصل کرنے میں ناکامیاب رہیں یقینا یہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے'۔

ایسا وقت بھی آیا ہے، جب ہمارے پاس کوئی حکمت عملی نہیں تھی۔ میرے آبائی ریاست تمل ناڈو میں 1967 سے ہم اقتدار میں نہیں آئے ہیں اور اگلے 600 سال تک وہاں ہم اقتدار میں نہیں آئیں گے، لیکن تمل ناڈو کا کوئی گاؤں ایسا نہیں ہے جہاں کوئی کانگریس کی حمایت کرنے کو تیار نہ ہو۔ اسی نے ہمیں ڈی ایم کے اور اے آئی اے ڈی ایم کے مابین ایک مستحکم کردار ادا کرنے کا موقع فراہم کرے گا'۔

'جب میں 1991 میں پارلیمنٹ میں آیا تو اے آئی اے ڈی ایم کے ساتھ ہمارے اتحاد نے تمل ناڈو کی تمام 39 پارلیمانی نشستیں جیت لیں۔ پارلیمانی سیاست میں تدبیر پائی جاتی ہے۔ ہمیں جاننا چاہئے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں اور معاشرتی گروہوں کو واپس حاصل کرنے کی کیا تدبیر ہوسکتی ہے؟'۔

'یہ ایک طویل مدتی حل ہے۔ ابھی کے لئے کیا کانگریس کو منتخب صدر کی ضرورت ہے؟ اگر موجودہ قیادت جزوی امور میں خود کو زیادہ سے زیادہ وقف کرنے کے قابل ہو جائے تو یہ اور بھی بہتر ہوگا۔ راہل گاندھی نے کانگریس کو متبادل تلاش کرنے کا ہر موقع فراہم کیا۔ انہوں نے اس عہدے سے ہٹتے ہوئے کہا کہ میں قیادت چھوڑ رہا ہوں اور میں اپنی ماں (سونیا گاندھی) یا بہن (پریانکا گاندھی واڈرا) کو بھی اقتدار سنبھالنے کی اجازت نہیں دوں گا، لیکن کانگریس میں کوئی بھی امیدوار کانگریس کی قیادت کرنے کے لئے امیدوار کے طور پر آگے آنے کے لئے تیار نہیں ہے'۔

'بی جے پی کا ہدف ہے کہ بھارت کو کانگریس مکت بنایا جائے اور وہ تبھی کامیاب ہوں گے جب کانگریس گاندھی سے مکت ہوگا۔ پارٹی کو مضبوط بنانے کے بارے میں کیا خیال ہے؟میرے ذہن میں یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے کہ تینوں گاندھیوں میں سے ایک کو قیادت کرنا چاہیے یا نہیں۔ انہوں نے بار بار ایسا کہا ہے کہ وہ پارٹی میں موجود ہے۔ ہم کسی شخص کو قیادت سنبھالنے کے لیے دباؤ کیسے ڈال سکتے ہیں'۔

'بحیثیت پارٹی ہمیں یہ پختہ عزم کرنے کی ضرورت ہے کہ ہمارا واحد دشمن بی جے پی ہے'۔

داخلی انتخابات کرانے کے بارے میں کیا خیال ہے؟ اس پر انھوں نے کہا ہے کہ 'سابق وزیراعظم راجیو گاندھی 1990 سے یہ بات کہہ رہے تھے اور راہل 2007 سے یہ کہہ رہے ہیں۔ یہاں تک کہ انہوں نے بھارتی یوتھ کانگریس اور نیشنل اسٹوڈنٹس یونین آف انڈیا میں بھی ایسا کرنے کی ضرورت ہے'

کانگریسی رہنما منی شنکر ایئر نے آخر میں کہا ہے کہ 'مجھے امید ہے کہ پارٹی 23 سینئر رہنماؤں کے ذریعہ پیش کردہ کچھ تجاویز کو قبول کرے گی'۔

Last Updated : Sep 4, 2020, 9:52 AM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.