جنگلی جانوروں کا جنگلات کی قریبی بستیوں میں گھس آنے اور افراتفری مچانے کے واقعات میں اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ یہ ان کسانوں اور دیہاتیوں کے لئے کوئی نئی بات نہیں ہے، جو جنگلوں کے قریب رہتے ہیں۔ تیلگو ریاستوں میں جنگلی جانور، جیسے کہ شیر، ریچھ، جنگلی سور، بندر اور چیتے بستیوں میں گھس کر انسانوں اور مویشیوں کے لئے باعث پریشانی بنتے رہتے ہیں۔
چھ ماہ قبل سینٹر فار گلوبل ہیلتھ ریسرچ، کنیڈا کی جانب سے جاری کی گئی ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق بھارت میں گذشتہ بیس برسوں کے دوران سانپ کے کاٹنے سے بارہ لاکھ لوگ ہلاک ہوئے ہیں۔ جبکہ ان میں سے آدھے سے زیادہ واقعات صرف آٹھ ریاستیں، جن میں تیلگو ریاستیں بھی شامل ہیں، کے دیہی علاقوں میں رونما ہوئے ہیں۔
سانپ کے کاٹنے کے واقعات زیادہ تر جنگلات کے قریب کی بستیوں میں رونما ہوتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل مرکزی وزارت ماحولیات و جنگلات نے انسانی بستیوں میں گھس آنے والے جنگلی جانوروں کی فہرست میں سانپ کو بھی شامل کردیا ہے۔ موجودہ دور میں اطلاعات کی بہم رسانی میں آسانی کی وجہ سے ہمیں جنگلی جانوروں کی موجودگی اور ان کی مائیگریشن کے بارے میں اطلاعات میسر ہوپاتی ہیں۔
جنگلی جانوروں کا انسانی بستیوں میں گھس جانے کے واقعات کا مسئلہ ماحولیاتی تبدیلی، جنگلات کے کٹاؤ، جنگلوں میں بستیاں بسائے جانے کے نتیجے میں بڑھ رہا ہے کیونکہ ان چیزوں کی وجہ سے جنگلات کے اندر پانی اور غذا کی قلت پیدا ہورہی ہے۔ مزید وجوہات کا پتہ لگانے کےلئے ایک مفصل تحقیق کی ضرورت ہے۔
شیروں کا دیہات میں گھس آنے کے واقعات میں حالیہ اضافہ خطرناک ہے۔ تلنگانہ ریاست کے آصف آباد ضلع میں شیر کے حملے میں دو افراد مارے گئے۔ تلگانہ میں پہلی بار شیر کے حملے میں انسان کے مارے جانے کے واقعات کی وجہ سے لوگوں میں خوف و ہراس پھیل گیا ہے۔ بدرادری کوٹا گوڈم ضلع کے پلونچا میں ایک لومڑی نے تین ماہ کے بچے کو شدید زخمی کردیا۔ عادل آباد کے اندرا ویلی میں ایک چیتے نے ایک شہری پر حملہ کردیا۔اسی طرح ایک کھیت میں کام کررہے کسان پر ریچھ نے حملہ کردیا، جس کی وجہ سے وہ شدید زخمی ہوگیا۔ کریم نگر اور کریم ریڈی علاقوں میں بھی انسانوں پر جانوروں کے حملوں کے واقعات میں اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔
آندھرا پردیش میں بھی جنگلی جانوروں کا بستیوں میں گھس آنے کے واقعات دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اگر ان واقعات کی سائنٹفک طریقہ کار سے جانچ کی جائی تو جنگلی جانوروں کا انسانوں اور مویشیوں پر حملوں کی اصل جڑ کا پتہ لگایا جاسکتا ہے۔ جنگلی حیات کے بارے میں کم جانکاری ہونے کی وجہ سے لوگ اکثر خواہ مخواہ بھی خوف میں مبتلا میں رہتے ہیں۔ مثال کے طور پر کریم نگر ضلع کے رامادگو منڈل گائوں میں ایک کھیت میں ایک حینا دیکھا گیا تو یہ افواہ پھیلائی گئی کہ افریقی براعظم کا چیتا گھس آیا ہے۔ اسی طرح کئی ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں، جن میں لوگوں نے جنگلی بلی کو شیر سمجھ لیا۔
محکمہ جنگلات کو چاہیے کہ وہ لوگوں کو یہ جانکاری بھی فراہم کرے کہ کسی جنگلی جانور کے حملے سے زخمی انسان کو فوری طور پر کس طرح کا علاج و معالجہ بہم پہنچایا جانا چاہیے۔ اس طرح کی جانکاری کو گرام پنچایت کی سطح پر عکس بند فلموں اور ملٹی میڈیا کی وساطت سے عام کرنے کی ضرورت ہے۔ محکمہ جنگلات کو ایک ایسا نظام مرتب کرنا چاہیئے، جس کے ذریعے یہ پتہ لگایا جاسکے کہ کس قسم کے جنگلی جانور زیادہ تر انسانی بستیوں میں گھس آتے ہیں اور اُن سے کس طرح سے نمٹا جانا چاہیے۔
جنگلات کے کٹاؤ کے بارے میں بر وقت جانکاری کے حصول کے لئے جیو گرافکل انفارمیشن سسٹم (جی آئی ایس) کا استعمال کرنا محکمہ جنگلات کے لئے سود مند ثابت ہوسکتا ہے۔ جنگل اسمگلر جو جنگلات کو لوٹتے ہیں اور جانوروں کو مار کر اُن کی کھالیں فروخت کرتے ہیں، کو پکڑنے کی ضرورت ہے۔ اس طرح سے جنگلی حیات اور اُن کی پناہ گاہوں کو محفوظ بنایا جاسکتا ہے۔ جانوروں کی نقل و حرکت پر نظر رکھنا بھی ضروری ہے۔ ان سے متعلق تفصیلات ہر ضلع میں میسر ہونی چاہیں۔ حکومت کو جنگلی جانوروں کے حملوں میں نقصان اٹھانے والے لوگوں کی امداد کے لئے محکمہ جنگلات کو خصوصی فنڈز مہیا کرنے چاہیں۔
مزید پڑھیں: نالہ سندھ قصہ پارینہ بننے کے دہانے پر
مہاراشٹرا حکومت نے گذشتہ برس اُن کنبوں کو فی کس پندرہ لاکھ روپے امداد فراہم کرنے کا اعلان کیا، جو جنگلی جانوروں کے حملوں میں مارے گئے ہیں۔ اس کے تحت متاثرہ کنبوں کو فی کس پانچ لاکھ روپے کی فوری امداد دی جائے گی اور باقی رقم کنبے کے نام پر فکسڈ ڈیپازٹ میں رکھے جائیں گے۔ اُن رقومات کو مقررہ وقت سے پہلے نکالنے کےلئے متعلقہ کنبوں کو پہلے محکمہ جنگلات کی اجازت حاصل کرنا ضروری ہے۔ باقی ریاستوں کو بھی اسی طرح کی پالیسی اپنانی چاہیے تاکہ اُن کنبوں کی مدد ہوسکے جو جنگلوں کے قریب رہتے ہیں۔