ETV Bharat / bharat

روزگار کے مواقع پیدا کرنے کی ضرورت

بھارت کی حکومت کو چاہیے کہ وہ خستہ حال کمپنیوں اور صنعتوں میں کام کرنے والوں کو اُجرت فراہم کرے۔ اس بحران میں میگا پیکج کے تحت پیسہ فضول چیزوں میں خرچ نہیں کیا جانا چاہیے۔ بلکہ پوری توجہ عوام کی مدد کرنے پر ہونی چاہیے۔ مختلف شعبوں کی مدد کرنے سے پہلے بھرپور تحقیق کی جانی چاہیے تاکہ ٹیکس دہندگان کا پیسہ ضائع نہ ہوجائے۔ جب زیادہ لوگوں کو روزگار فراہم ہوگا تو اس کے نتیجے میں ان کی قوت خرید بڑھ جائے گی اور اس طرح سے قومی معیشت مضبوط ہوگی۔ حکومت کی کامیابی یہ ہوگی کہ وہ محدود وسائل کا زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائے۔ اس ضمن میں ماہرین کی مدد سے حکومت قومی ترقی کو فروغ دے سکتی ہے۔

author img

By

Published : May 16, 2020, 6:07 PM IST

روزگار کے مواقع پیدا کرنے کی ضرورت
روزگار کے مواقع پیدا کرنے کی ضرورت

وزیراعظم مودی نے منگل کی رات ایک غیر معمولی مالی پیکج کا اعلان کیا۔ اس پیکج کے تحت کورونا وبا کے دوران متاثر ہوئے سماجی اور گھریلو شعبوں کی مدد کرنے کا وعدہ کیا گیا ہے۔ وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے گزشتہ روز بیس لاکھ کروڑ کے اس پیکج کے مشمولات کو نافذ کرنے سے متعلق تفصیلات بتائیں۔

وزیر خزانہ نے اس پیکج کے دائرے میں لائے گئے جن پندرہ شعبوں کا تذکرہ کیا، اُن میں چھوٹے درجے کے کارخانوں سے لے کر بجلی تقسیم کرنے والی کمپنیوں تک کے شعبے شامل ہیں۔ اس پیکج کے تحت ’آتم نربھر بھارت‘ یعنی ایک خود انحصار ملک کے تصور کو عملی جامہ پہنانے کا بھی خیال رکھا گیا ہے۔

وزیر اعظم نے پندرہ دن پہلے ہی یہ واضح کردیا تھا کہ کورونا کی وبا نے ہمیں یہ پیغام دیا ہے کہ دیہات اور اضلاع کی سطح پر اپنی گھریلو ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ہمیں بیرونی دُنیا پر انحصار کرنے کے بجائے خود انحصاری پر توجہ دینی ہوگی۔ اس لئے پورے ملک کو خود انحصاری کے لیے کام کرنا ہوگا۔ اس وسیع امدادی پیکج کے بعد حکومت نے اب اس کو زمینی سطح پر لاگو کرنے کی اپنی صلاحت کا مظاہرہ کرنا شروع کردیا ہے۔

سب کو پتہ ہے کہ پہلے لاک ڈاون کے ابتدائی دو دن میں ہی وزیر خزانہ نے ’پردھان منتری غریب کلیان یوجنا‘ کے تحت 1.70 لاکھ کروڑ کا پیکیج جاری کردیا تھا۔ یہ رقم ملک کے جی ڈی پی کا 0.8 فی صد کے برابر ہے۔ جبکہ ریزرو بینک آف انڈیا (آر بی آئی) کے فیصلوں کی رو سے ملنے والی مدد ہمارے جی ڈی پی کا تین فیصد کے برابر ہے۔ بیس لاکھ کروڑ روہے کے نئے اعلان شدہ پیکیج میں یہ دونوں پچھلے پیکیجز بھی شامل ہیں۔ مجموعی طور پر اب حکومت کی جانب سے فراہم کیا جارہا پیکیج ملک کے جی ڈی پی کا دس فیصد ہے۔

دُنیا بھر کے کئی ممالک نے اپنے جی ڈی پی کا ایک حصہ ان ممالک کے متاثرہ نظام کو ٹھیک کرنے کے لئے جاری کردیا ہے۔ اسی طرز پر بھارت نے بھی اپنے جی ڈی پی کا ایک حصہ پیکیج کے طور پر فراہم کیا۔ جاپان نے اپنے جی ڈی پی کا 21.1فیصد، امریکہ نے 13 فیصد، سویڈن نے 12 فیصد اور جرمنی نے 10.7 فیصد کے پیکیج فراہم کردیئے ہیں۔

بھارت کا میگا پیکج اسی صورت میں سو فیصد سود مند قرار دیا جاسکتا ہے جب اس کی مدد سے پیداوار میں اضافہ ہوگا اور روزگار پیدا کرنے کے اہداف پورے ہوں گے۔ حکومت نے اس میگا مالی پیکیج کی مدد سے زرعی شعبے کے بعد چھوٹے درجے کے کارخانوں کی مدد کرنے اور بارہ کروڑ لوگوں کے لئے روزگار کے وسائل پیدا کرنے کا ہدف مقرر کرلیا ہے۔ اس پیکیج کے نتیجے میں یقینی طور پر چھوٹی صنعتوں میں نئی جان پڑے گی۔ اس پیکیج کے تحت تمام شعبوں کی ترقی کے لئے مدد کی جانی چاہیے۔

اس وقت سیاحتی شعبہ ٹھپ ہے۔ حکومت کو اس شعبے کی بحالی کےلئے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات کرنے ہوں گے۔ خوش قسمتی سے غذائی اجناس کی وافر مقدار میں موجودگی کی وجہ سے حکومت کے اعتماد میں اضافہ ہوگیا ہے۔ اب حکومت کو زرعی شعبے کو فروغ دینے اور ضرورت مندوں کو خوراک فراہم کرنے کی جانب توجہ دینی چاہیے۔ برطانیہ کی سرکار نے اپنے ملک کے اسی فیصد کام کرنے والوں کی اجرتیں فراہم کرنے پر آمادگی کا اظہار کیا ہے۔ امریکہ اور آسٹریلیا نے بھی روزگار کے شعبوں میں اقدامات کئے ہیں۔

ہماری حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ خستہ حال کمپنیوں اور صنعتوں میں کام کرنے والوں کو اُجرتیں فراہم کرے۔ اس بحران میں میگا پیکج کے تحت پیسہ فضول چیزوں میں خرچ نہیں کیا جانا چاہیے۔ بلکہ پوری توجہ عوام کی مدد کرنے پر ہونی چاہیے۔ مختلف شعبوں کی مدد کرنے سے پہلے بھرپور تحقیق کی جانی جانی چاہیے تاکہ ٹیکس دہندگان کا پیسہ ضائع نہ ہوجائے۔ جب زیادہ لوگوں کو روزگار فراہم ہوگا تو اس کے نتیجے میں ان کی قوت خرید بڑھ جائے گی اور اس طرح سے قومی معیشت مضبوط ہوگی۔ حکومت کی کامیابی یہ ہوگی کہ وہ محدود وسائل کا زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائے۔ اس ضمن میں ماہرین کی مدد سے حکومت قومی ترقی کو فروغ دے سکتی ہے۔

وزیراعظم مودی نے منگل کی رات ایک غیر معمولی مالی پیکج کا اعلان کیا۔ اس پیکج کے تحت کورونا وبا کے دوران متاثر ہوئے سماجی اور گھریلو شعبوں کی مدد کرنے کا وعدہ کیا گیا ہے۔ وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے گزشتہ روز بیس لاکھ کروڑ کے اس پیکج کے مشمولات کو نافذ کرنے سے متعلق تفصیلات بتائیں۔

وزیر خزانہ نے اس پیکج کے دائرے میں لائے گئے جن پندرہ شعبوں کا تذکرہ کیا، اُن میں چھوٹے درجے کے کارخانوں سے لے کر بجلی تقسیم کرنے والی کمپنیوں تک کے شعبے شامل ہیں۔ اس پیکج کے تحت ’آتم نربھر بھارت‘ یعنی ایک خود انحصار ملک کے تصور کو عملی جامہ پہنانے کا بھی خیال رکھا گیا ہے۔

وزیر اعظم نے پندرہ دن پہلے ہی یہ واضح کردیا تھا کہ کورونا کی وبا نے ہمیں یہ پیغام دیا ہے کہ دیہات اور اضلاع کی سطح پر اپنی گھریلو ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ہمیں بیرونی دُنیا پر انحصار کرنے کے بجائے خود انحصاری پر توجہ دینی ہوگی۔ اس لئے پورے ملک کو خود انحصاری کے لیے کام کرنا ہوگا۔ اس وسیع امدادی پیکج کے بعد حکومت نے اب اس کو زمینی سطح پر لاگو کرنے کی اپنی صلاحت کا مظاہرہ کرنا شروع کردیا ہے۔

سب کو پتہ ہے کہ پہلے لاک ڈاون کے ابتدائی دو دن میں ہی وزیر خزانہ نے ’پردھان منتری غریب کلیان یوجنا‘ کے تحت 1.70 لاکھ کروڑ کا پیکیج جاری کردیا تھا۔ یہ رقم ملک کے جی ڈی پی کا 0.8 فی صد کے برابر ہے۔ جبکہ ریزرو بینک آف انڈیا (آر بی آئی) کے فیصلوں کی رو سے ملنے والی مدد ہمارے جی ڈی پی کا تین فیصد کے برابر ہے۔ بیس لاکھ کروڑ روہے کے نئے اعلان شدہ پیکیج میں یہ دونوں پچھلے پیکیجز بھی شامل ہیں۔ مجموعی طور پر اب حکومت کی جانب سے فراہم کیا جارہا پیکیج ملک کے جی ڈی پی کا دس فیصد ہے۔

دُنیا بھر کے کئی ممالک نے اپنے جی ڈی پی کا ایک حصہ ان ممالک کے متاثرہ نظام کو ٹھیک کرنے کے لئے جاری کردیا ہے۔ اسی طرز پر بھارت نے بھی اپنے جی ڈی پی کا ایک حصہ پیکیج کے طور پر فراہم کیا۔ جاپان نے اپنے جی ڈی پی کا 21.1فیصد، امریکہ نے 13 فیصد، سویڈن نے 12 فیصد اور جرمنی نے 10.7 فیصد کے پیکیج فراہم کردیئے ہیں۔

بھارت کا میگا پیکج اسی صورت میں سو فیصد سود مند قرار دیا جاسکتا ہے جب اس کی مدد سے پیداوار میں اضافہ ہوگا اور روزگار پیدا کرنے کے اہداف پورے ہوں گے۔ حکومت نے اس میگا مالی پیکیج کی مدد سے زرعی شعبے کے بعد چھوٹے درجے کے کارخانوں کی مدد کرنے اور بارہ کروڑ لوگوں کے لئے روزگار کے وسائل پیدا کرنے کا ہدف مقرر کرلیا ہے۔ اس پیکیج کے نتیجے میں یقینی طور پر چھوٹی صنعتوں میں نئی جان پڑے گی۔ اس پیکیج کے تحت تمام شعبوں کی ترقی کے لئے مدد کی جانی چاہیے۔

اس وقت سیاحتی شعبہ ٹھپ ہے۔ حکومت کو اس شعبے کی بحالی کےلئے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات کرنے ہوں گے۔ خوش قسمتی سے غذائی اجناس کی وافر مقدار میں موجودگی کی وجہ سے حکومت کے اعتماد میں اضافہ ہوگیا ہے۔ اب حکومت کو زرعی شعبے کو فروغ دینے اور ضرورت مندوں کو خوراک فراہم کرنے کی جانب توجہ دینی چاہیے۔ برطانیہ کی سرکار نے اپنے ملک کے اسی فیصد کام کرنے والوں کی اجرتیں فراہم کرنے پر آمادگی کا اظہار کیا ہے۔ امریکہ اور آسٹریلیا نے بھی روزگار کے شعبوں میں اقدامات کئے ہیں۔

ہماری حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ خستہ حال کمپنیوں اور صنعتوں میں کام کرنے والوں کو اُجرتیں فراہم کرے۔ اس بحران میں میگا پیکج کے تحت پیسہ فضول چیزوں میں خرچ نہیں کیا جانا چاہیے۔ بلکہ پوری توجہ عوام کی مدد کرنے پر ہونی چاہیے۔ مختلف شعبوں کی مدد کرنے سے پہلے بھرپور تحقیق کی جانی جانی چاہیے تاکہ ٹیکس دہندگان کا پیسہ ضائع نہ ہوجائے۔ جب زیادہ لوگوں کو روزگار فراہم ہوگا تو اس کے نتیجے میں ان کی قوت خرید بڑھ جائے گی اور اس طرح سے قومی معیشت مضبوط ہوگی۔ حکومت کی کامیابی یہ ہوگی کہ وہ محدود وسائل کا زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائے۔ اس ضمن میں ماہرین کی مدد سے حکومت قومی ترقی کو فروغ دے سکتی ہے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.