یہ ہیں محمد فاروق جو پیدائشی طور پر دونوں پیروں سے معذور ہیں لیکن کسی کے آگے ہاتھ پھیلانےکے بجائے محنت و مزدوری کرکے اپنا پیٹ پالتے ہیں اور نوکری کا یہ موقع انہیں زردوزی کارخانہ کے مالک محمد نعیم نے دیا ہے۔ زردوزی کے اس کارخانے سے فاروق علی جیسے سینکڑوں لوگوں کو روزگار کے مواقع میسر ہو رہے ہیں۔ پہلے ان لوگوں کو اپنی روزی روٹی کی تلاش میں دہلی اور ممبئی کا رخ کرنا پڑتا تھا، لیکن اب ان لوگوں کو کام کی تلاش میں ہجرت کرنے کے بجائے اپنے علاقے میں ہی کام مل جاتا ہے جس سےاس روزگار سے جڑے کاریگر خوش ہیں۔
زری کی کاریگری سے مختلف قسم کی پھول پتیاں، اور لوگو تیار کرنے والے ان کاریگروں کا کام انتہائی باریک اور مشکل ہے۔ ان کی آنکھوں پر باریک کام کرنے کی وجہ سے کافی اثر پڑتا ہے، لیکن خوش ہیں کہ اپنے گھرپر رہ کر کام مل جاتا ہے۔ زری کے ان کاریگروں کی شکایت ہے کہ مودی حکومت میں ان کا کام بھی دوسرے شعبوں کی طرح ہی متاثر ہوا ہے۔ ان لوگوں کے مطابق پہلے انہیں مہینے میں 30 دن کام مل جاتا تھا لیکن اب انہیں مشکل سے ہی کام مل پاتا ہے۔
زری کارخانے کے مالک محمد نعیم بڑے شہروں سے آرڈر لیتے ہیں اور مال تیار کرکے ٹرانسپورٹ کے ذریعہ بھیج دیتے ہیں، چھوٹی جگہوں پر انہیں کارخانہ چلانے کے لئے خرچ بھی کم پڑتا ہے اور کاریگر بھی اپنے گھر پر کام ملنے سے خوش ہیں۔
نعیم کی طرح درجنوں کارخانوں کے مالک اپنا کاروبار دلی، ممبئی سے منتقل کرکے اس علاقے میں لے آئے ہیں، جس سے ہزاروں لوگوں کو روزگار مل گیا ہے اور یہ کارخانے بے روزگاروں کا بوجھ ہلکا کر رہے ہیں، کیونکہ بھاگلپور ضلع سے متصل اس علاقے میں نہ ہی کوئی انڈسٹری ہے اور نہ ہی کوئی اور صنعت جہاں لوگوں کو روزگار مل سکے۔ ایسے میں زردوزی کا کام ہزاروں لوگوں کے لئے ذریعہ معاش کا ایک سہارا ثابت ہورہا ہے۔