مرکزی حکومت کی جانب سے بجلی کے نئے بل کو پیش کرنے کے بعد توقع کی جارہی ہے کہ ملک کے بجلی شعبوں کو بنیادی طور پر تبدیل کیا جائے گا۔یہ مرکز کو ٹیرف طئے کرنے، معاہدوں کو ناٖفذ کرنے اور ریاستوں کے سبسڈی ڈھانچے کو منظم کرنے کی طاقت دیتا ہے، جس کی وجہ سے متعدد ریاستوں کی بجلی تقسیم کرنے والی کمپنیوں کی مالی حالت کمزور ہوجائے گی۔
تمل ناڈو جیسی متعدد ریاستوں نے بجلی ترمیمی بل 2020 کے مسودے پر سخت ردعمل ظاہر کیا ہے، جبکہ سابق سکریٹری پی اوما شنکر اور ماہر معاشیات اور مصنف موہن گروسوامی سمیت دیگر لوگوں نے اس بل کی حمایت کی ہے۔
یہ نیا بل مرکزی اور ریاستی سطح پر پاور سیکڑ میں کلیدی رول ادا کرنے والے ریگولیٹری اور اپلیٹ اداروں کے عہدیداروں کے ناموں کی سفارش کرنے میں مرکز کو مزید طاقت تفویض کرے گا۔
سابق پاور سکریٹری پی اوما شنکر نے کہا کہ ریاستیں استدلال کرسکتی ہیں کہ ان کے حقوق اور اختیارات چھین لیے گئے ہیں لیکن یہ بات بھی سچ ہے کہ ریاستوں نے تقرریوں میں اس قدر تاخیر کی کہ کمیشن( ریاستی بجلی کے ریگولیٹری کمیشن ) کو غیر فعال ہوگئے۔
سابق بیورو کریٹ، جو وزیراعظم من موہن سنگھ کے دوسرے معیاد کے دوران ملک کے بجلی شعبے کے پالیسی ساز تھے انہوں نے بھی ریاستی سطح پر انتخاب کے معیار پر سوال اٹھایا۔
پی اوما شنکر نے کہا کہ کمیشن آزادنہ طور پر کام نہیں کررہے ہیں، مثال کے طور پر اگر محصولات میں اضافہ کیا جاتا ہے تو ان کی نگاہ ہمیشہ ریاستی بیوروکریسی کے طرف ہوتی ہے۔شاید اسی وجہ سے مرکزی حکومت ان ناموں کی سفارش کرنا چاہتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ مجوزہ قانون کے تحت تقرریوں کا بروقت منعقد کیا جائے گا اور نئے عہدیدار کہیں زیادہ غیر جانبدار اور آزادانہ انداز میں کام کرسکیں گے۔
انہوں نے کہا کہ اس سے ٹیرف پر نظرثانی پر مثبت اثر مرتب ہوگا۔ کیونکہ یہ ریاست میں ردوبدل کا سب سے بڑا مسئلہ ہے اور اس سے شخص کی غیرجانبداری کہیں زیادہ ہوگی۔
تاہم ، آئینی ماہرین جیسے سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس مدن بی لوکور نے سلیکشن کمیٹی کے ہاتھ میں بہت زیادہ طاقت دیے جانے پر احتیاط برتنے کو بھی کہا ہے۔
بل کے سیکشن 78 میں اپیلٹ ٹریبونل، مرکزی اور ریاستی کمیشنوں، مشترکہ کمیشنوں کے ممبروں کے ناموں اور مجوزہ معاہدہ نفاذ اتھارٹی کے ممبروں کے ناموں کی سفارش کرنے کے لئے ایک سلیکشن کمیٹی کے قیام کی تجویز پیش کی گئی ہے۔
پانچ ارکان میں مشتمل اس کمیشن کے پاس بھارت کے سپریم کورٹ کا ایک سیٹنگ یا ریٹائرڈ جج ہوگا جسے چیف جسٹس آف انڈیا، مرکزی حکومت کے دو سکریٹریوں اور دو ریاستوں کے چیف سیکریٹریوںکے طرف سے نامزد کیا جائے گا۔
لوکر نے مزید کہا کہ ججوں کی تقرری میں ہوئے حالیہ تنازعات سے انکشاف ہوا ہے کہ سلیکشن کمیٹی کی سفارشات بھی تنازعات کا سبب بننے گی جب تک کہ کسی واضح طریقہ کار کا اعلان نہیں کیا جاتا۔
انہوں نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا ،"یہ واضح نہیں ہے کہ سلیکشن کمیٹی کی سفارشات کو ہمیشہ قبول کیا جائے گا اور اگر نہیں کیا جائے گا تو اسے مسترد کرنے کی کیا بنیادی وجہ کیا ہے۔"
نیو کانٹریکٹ انفورسمینٹ آتھارٹی (ای سی ای اے)
مجوزہ بل کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ بجلی شعبے میں معاہدوں کو نافذ کرنے کے لئے ایک نئی اتھارٹی کو تشکیل دینا ہے۔ تاہم ، سابق وزیر سکریٹری پی اما شنکر جیسے ماہرین اس بات پر اتفاق نہیں رکھتے ہیں۔
انہوں نے کہا ایک اور حکام کے اختیارات کو سمجھنے میں بھی دوشوار ہوگئی۔انہوں نے اس کی وضاحت کرتےہوئے بتایا کہ مجھے نہیں لگتا کہ اس کی کوئی ضرورت ہے۔اگر بجلی شعبے میں معاہدے کو نافذ کرنے میں کوئی مسئلہ ہوتا ہے تو موجودہ ایکٹ کو ردوبدل کرکے اس پر توجہ دی جاسکتی ہے۔
سبسڈی پر تنازعہ
پچھلے ہفتے تمل ناڈو کے وزیر اعلی ای کے پالینی سوامی نے وزیر اعظم نریندر مودی کو ایک خط لکھا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ وہ بجلی کی ترمیمی بل کو روک دیں کیونکہ اس میں مزید غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔
اطلاعات کے مطابق اپنے خط میں ای کے پالینی سوامی نے کہا کہ تمل ناڈو اپنے کسانوں کو مفت بجلی کی فراہمی کے لئے پرعزم ہے اور نئے بل اس پالیسی کو متاثر کرے گا۔
تاہم سابق سکریٹری پاور پی اوما شنکر نے کہا کہ مجوزہ بل ریاستوں سے سبسڈی دینے کا اختیار نہیں چھین رہا ہے۔
انہوں نے ای ٹی وی بھارت سے کہا کہ اب جو تجویز کیا گیا ہے وہ یہ ہےکی ٹیرف کو طئے کرتے وقت سبسڈی کو مدنظر نہیں رکھا جائے گا، اگر ریاستیں کسانوں کو تین روپے فی یونٹ سبسڈی دینا چاہتی ہے تو وہ اسے سیدھے دے سکتی ہے لیکن زراعت کے لیے ٹیرف صفر نہیں ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ یہ اچھا خیال ہے۔
موہن گروسوامی نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ یہ بجلی مفت فراہم کرتے ہیں ۔آپ ہمیشہ بجلی مفت فراہم نہیں کرسکتے ہیں اورکسی سے کوئی بل وصول نہیں کرتے ہیں۔
قابل تجدید بجلی کی خریداری پر تنازعہ
کچھ ریاستوں نے قابل تجدید بجلی کی خریداری کی مخالفت کی ہے جو مہنگی ہوتی ہے اور بجلی تقسیم کرنے والی کمپنیوں کے مالی حالات کو متاثر کرسکتی ہے۔
پی اوما شنکر نے بتایا کہ ایک طرف مرکز کو لگتا ہے کہ آر پی او(رینوایبل پاور اوبلیگیشن) کے اہداف کی تعمیل نہیں کی گئی ہے۔وہیں دوسری طرف ریاستی حکومتوں کو لگتا ہے کہ آر پی اور کے طئے شدہ ہدف ان کی بجلی تقسیم کرنے والی کمپنیوں کے مالی نقصان کا سبب بننے گیں۔
موہن گروسوامی نے کہا کہ یہ سچ ہے کہ قابل تجدید بجلی کی قیمت زیادہ ہوتی ہے لیکن اس سے ماحول کو فائدہ ہوتا ہےجس کی مقدار طئے نہیں کی جاسکتی ہے اور کوئلے پر ہمارا انحصار بھی کم ہوتا ہے۔
گرو سوامی نے بتایا کہ کوئلہ ہوا کو آلودہ کررہی ہے اور ہم نے پیرس معاہدے کے تحت وعدے کئے ہیں۔صاف توانائی پر زیادہ لاگت آئے گی لیکن اس کے بے حساب فوائد ہیں۔
سابق وزیر سکریٹری پی اوما شنکر نے ریاستی مالیات کے تحفظ کے ساتھ ساتھ صاف توانائی کو فروغ دینے کی ضرورت کے درمیان دونوں میں توازن قائم کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ مشکل دونوں طرف سے ہے۔ بس ہمیں ان کو متوازن کرنا ضروری ہے۔