عیدعاد یعود سے ماخوذ ہے جس کے معنے ہیں بار بار لوٹ کر آنے کا چونکہ عیدالفطر ہر سال آتی ہے اس لیے اسے عید کہی جاتی ہے۔
عیدالفطر
عید الفطر دراصل بہت سی خوشیوں کا مجموعہ ہے۔ ایک رمضان المبارک کے روزوں کی خوشی، دوسری قیام شب ہائے رمضان کی خوشی، تیسری نزول قرآن، چوتھی لیلۃ القدر اور پانچویں اللہ تعالیٰ کی طرف سے روزہ داروں کے لئے رحمت و بخشش اور عذاب جہنم سے آزادی کی خوشی۔ پھر ان تمام خوشیوں کا اظہار صدقہ و خیرات جسے صدقہ فطر کہا جاتا ہے، کے ذریعے کرنے کا حکم ہے تاکہ عبادت کے ساتھ انفاق و خیرات کا عمل بھی شریک ہو جائے۔ یہی وہ وجوہات ہیں جن کی بناء پر اسے مومنوں کے لئے ’’خوشی کا دن‘‘ قرار دیا گیا۔
عید کا آغاز
خالص اسلامی فکر اور دینی مزاج کے مطابق اسلامی تمدُّن، معاشرت اور اجتماعی زندگی کا آغاز ہجرت کے بعد مدینۂ منوّرہ میں ہوا۔
چناںچہ رسول اللہ ﷺ کی مَدَنی زندگی کے ابتدائی دور میں عیدین کا مبارک سلسلہ شروع ہوگیا تھا، جس کا تذکرہ سنن ابی داؤد کی مندرجہ ذیل حدیث میں ملتا ہے۔
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ اہل ِمدینہ دو دن بطور ِتہوار منایا کرتے تھے جن میں وہ کھیل تماشے کیا کرتے تھے۔
رسول اللہ ﷺ نے ان سے پوچھا: ’’یہ دو دن جو تم مناتے ہو، ان کی حقیقت اور حیثیت کیا ہے؟‘‘ (یعنی ان تہواروں کی اصلیت اور تاریخی پس منظر کیا ہے؟)، انہوں نے عرض کیا کہ ہم عہد ِجاہلیت میں (یعنی اسلام سے پہلے) یہ تہوار اسی طرح منایا کرتے تھے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ اللہ تعالیٰ نے تمہارے ان دونوں تہواروں کے بدلے میں تمہارے لیے ان سے بہتر دو دن مقرر فرما دیئے ہیں۔
عید الفطر اور عید الاضحیٰ
غالباً وہ تہوار جو اہل ِمدینہ اسلام سے پہلے عہد ِجاہلیت میں عید کے طور پر منایا کرتے تھے وہ ’’نو روز‘‘ اور ’’ مہرجان‘‘ کے ایام تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے یہ تہوار منانے سے منع فرما دیا اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے بدلے میں اپنے خصوصی انعام و اکرام کے طور پر عیدالفطر اور عیدالاضحی کے مبارک ایام مسلمانوں کو عطا فرمائے ہیں۔
نمازِ عید
نمازِ عید کا ثبوت صحیح احادیث سے ملتا ہے۔ احناف کے نزدیک عید کی نماز ہر اس شخص پر واجب ہے جس پر جمعہ فرض ہے، دیگر ائمہ میں سے بعض کے نزدیک فرضِ کفایہ ہے اور بعض کے نزدیک سنتِ مؤکَّدہ ۔ نمازِ عید بغیر اذان و اقامت کے پڑھنا حدیث سے ثابت ہے۔ نمازِ عید کا وقت چاشت سے لے کر نصفُ النّہار شرعی تک ہے۔ عید الفطر ذرا تاخیر سے پڑھنا اور عید الاضحی جلدی پڑھنا مستحب ہے۔ نمازِ عید کے بعد امام کا دو خطبے پڑھنا سنت ہے۔ احناف کے نزدیک نمازِ عید میں چھ زائد تکبیریں ہیں جو پہلی رکعت میں سورۂ فاتحہ سے پہلے تین اور دوسری رکعت میں رکوع سے پہلے تین زائد تکبیریں امام کے ساتھ پڑھنی چاہئیں۔ دیگر ائمہ کے نزدیک ان زائد تکبیرات کی تعداد چھ سے زائد ہے۔ عید کی نماز آبادی سے باہر کھلے میدان میں پڑھنا سنت ہے۔ البتہ بارش، آندھی یا طوفان کے سبب مسجد میں بھی پڑھی جا سکتی ہے۔ عیدالفطر میں نماز سے پہلے کچھ کھا پی لینا سنت ہے ۔
عید میں کیا کرنا مستحب ہے:
۱۔ حجامت بنوانا ۲۔ ناخن تراشنا ۳۔ غسل کرنا ۴۔ مسواک کرنا ۵۔ خوشبو لگانا ۶۔ اچھے صاف ستھرے ( اگر دستیاب ہوں تو) کپڑے پہننا ۷۔ صبح کی نماز مسجد میں پڑھ کر عیدگاہ چلے جانا۔ فقہا نے نمازِ عید سے پہلے اور فوراً بعد عید گاہ میں نفل پڑھنے کو مکروہ لکھا ہے۔
ہرحال! یہ عید الفطر خوشی منانے کا اور اسلامی تہوار کا پہلا دن ہے۔ حدیث میں اس کو یوم الجائزہ بھی قرار دیا گیا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے پورے مہینے کی عبادتوں پر انعام دئیے جانے کا دن ہے جو مغفرت کی شکل میں دیا جاتا ہے۔
عید الفطر کے دن جب مسلمان عید گاہ میں جمع ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ فرشتوں کے سامنے فخر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’یہ ہیں میرے وہ بندے جو عبادت میں لگے ہوئے ہیں اور بتاؤ کہ جو مزدور اپنا کام پورا کر لے اس کا کیا صلہ ملنا چاہیے؟ جواب میں فرشتے فرماتے ہیں کہ جو مزدور اپنا کام پورا کر لے اس کا صلہ یہ ہے کہ اسے اس کی پوری پوری مزدوری دے دی جائے۔ اس میں کوئی کمی نہ کی جائے۔ اللہ تعالیٰ پھر فرشتوں سے فرماتے ہیں کہ یہ میرے بندے ہیں، میں نے رمضان کے مہینے میں ان کے ذمے ایک کام لگایا تھا کہ روزہ رکھیں اور میری خاطر کھانا پینا چھوڑ دیں اور اپنی خواہشات کو ترک کر دیں، آج انہوں نے اپنا فریضہ مکمل کر دیا۔ اب یہ اس میدان کے اندر جمع ہیں اور مجھ سے دعا مانگ رہے ہیں۔ میں اپنی عزت و جلال کی قسم کھاتا ہوں، اپنے علو مکان کی قسم کھاتا ہوں کہ آج میںسب کی دعاؤں کو قبول کروں گا اور میں ان گناہوں کی مغفرت کروں گا اور ان کی برائیوں کو نیکیوں میں بدل دوں گا۔‘‘
چنانچہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ:
’’جب روزہ دار عید گاہ سے واپس جاتے ہیں تو اس حالت میں جاتے ہیں کہ ان کی مغفرت ہو چکی ہوتی ہے۔‘‘
بہرحال شکر گزار بننے کا راستہ یہی ہے کہ جس ذات نے تمہاری برائیوں کو حسنات میں بدل دیا ہے اس کی نافرمانی سے اور گناہوں سے اور معصیتوں سے آئندہ زندگی کو بچانے کی فکر کرو۔
عید کا یہ دن ہمارے اور آپ کے لئے خوشی کا دن بھی ہے اور فرحت کا دن بھی۔ اور ساتھ ہی اللہ تعالیٰ سے مغفرت کی امید رکھنے کا دن بھی۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے اس فریضے کی ادائیگی کی توفیق عطا فرمائے اور آئندہ زندگی گناہوں اور معصیتوں سے اور نافرمانیوں سے بچائے۔ آمین
روزہ داروں کے لیے خوشیاں
’یعنی اللہ تعالیٰ نے روزہ دار کے لئے دو خوشیاں رکھی ہیں، ایک خوشی وہ ہے جو افطار کے وقت حاصل ہوتی ہے اور دوسری خوشی اس وقت حاصل ہو گی جب وہ قیامت کے روز اپنے پروردگار سے جا کر ملاقات کرے گا۔‘‘
اصل خوشی تو وہی ہے جو آخرت میں اللہ تعالیٰ سے ملاقات کے وقت حاصل ہو گی ان شاء اللہ۔ اللہ تعالیٰ ہر صاحب ایمان کو یہ خوشی نصیب فرمائیں۔ آمین
افطار
آخرت کی خوشی کی تھوڑی سی جھلک اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں بھی رکھ دی ہے، یہ وہ خوشی ہے جو افطار کے وقت حاصل ہوتی ہے۔ پھر یہ افطار دو قسم کے ہیں: ایک افطار وہ ہے جو روزانہ رمضان میں روزہ کھولتے وقت ہوتا ہے، اس افطار کے وقت ہر روزہ دار کو خوشی حاصل ہوتی ہے۔ دیکھئے! سارے سال کھانے پینے میں اتنا لطف اور اتنی خوشی حاصل نہیں ہوتی جو لطف اور خوشی رمضان المبارک میں افطار کے وقت حاصل ہوتی ہے، ہر شخص اس کا تجربہ کرتا ہے۔ علماء کرام روزانہ کے اس افطار کو ’’افطار اصغر‘‘ کہتے ہیں اور دوسرا افطار وہ ہے جو رمضان المبارک کے ختم پر ہوتا ہے جس کے بعد عید الفطر کی خوشی ہوتی ہے، اس کو ’’افطار اکبر‘‘ کہتے ہیں۔ اس لئے کہ سارے مہینے اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل میں روزے رکھنے اور اس کی بندگی اور عبادت کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ عید کے دن خوشی اور مسرت عطا فرماتے ہیں۔ یہ خوشی آخرت میں اللہ تعالیٰ سے ملاقات کے وقت حاصل ہونے والی خوشی کی ایک چھوٹی سی جھلک ہے جو اللہ تعالیٰ نے عید کی شکل میں بندوں کو عطا فرمائی ہے۔
صدقہ فطر ادا کرنا:
عید الفطر کی مناسبت سے ایک اہم کام صدقہ فطر کی ادائیگی ہے۔روزے کے دوران انسان سے جو بھول چوک یا غلطی ہوتی ہیں ،اس کی تلافی کے لیے رسول اللہﷺ نے صدقہ فطر کا حکم دیا ہے۔حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا کہ آپﷺ نے صدقہ فطر روزوں کو لغو اور گندی باتوں سے پاک کرنے کے لیے اور مساکین کی روزی کے لیے مقرر فرمایا(ابوداؤد:1609)
صدقہ فطر کی مشروعیت نماز سے پہلے تک ہے،بہتر ہے کہ اسے رمضان ہی میں ادا کردیا جائے تا کہ غرباء و مساکین بھی عید کی خوشیوں میں شریک ہو سکیں۔ یہ ہر مسلمان مرد عورت چھوٹے بڑے ،سب پر فرض ہے۔اس کی مقدار ایک صاع، گندم کے علاوہ (تقریبا ڈھائی کلو گرام)اور گندم، نصف صاع ہے ۔اس کے برابر قیمت بھی دی جا سکتی ہے۔