حسنی مبارک سنہ 1981 سے مسلسل سنہ 2011 تک مصر کے صدر تھے، انہوں نے سنہ 2011 میں ہونے والے احتجاجی مظاہرہ کے بعد اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔
مصر کے چوتھے صدر حسنی مبارک نے 30 جنوری تک مصر پر حکمرانی کی، اس سے پہلے کہ انہیں 25 جنوری کو ہونے والے انقلاب کے نتیجے میں 11 فروری سنہ 2011 کو استعفی دینے پر مجبور کیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ حسنی مبارک اور ان کے بیٹوں کو 24 مئی سنہ 2011 میں مظاہرین کے قتل اور بدعنوانی کے الزمات پر کیسز کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا، تاہم 19 اگست سنہ 2013 کو وہ خود پر لگے بدعنوانی کے الزامات سے بری ہوگئے تھے۔
حسنی مبارک کا انتقال ایسے موقع پر ہوا ہے جب ان کے دونوں بیٹوں کو بینک کی فروخت کے دوران ناجائز شیئر ٹریڈنگ کے الزام سے بری کردیا گیا تھا۔
حسنی مبارک نے صدر بننے سے پہلے مصری ایئر فورس میں کمانڈر کی خدمات بھی انجام دے چکے ہیں۔
واضح رہے کہ حسنی مبارک نے انور سادات کو قتل کیے جانے کے بعد صدر کا عہدہ سنبھالا تھا۔
حسنی مبارک کو سنہ 2013 میں ضمانت ملنے کے بعد طرہ جیل سے فوجی ہسپتال منتقل کیا گیا تھا، اور ان کو سنہ 2012 میں فروری سنہ 2011 میں مظاہرین کو سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں ہلاک کروانے کے جرم میں عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
اس سزا کے بعد ایک اور مقدمے میں جج نے مئی سنہ 2015 میں فیصلہ سنایا کہ حسنی مبارک کو حراست سے رہا کیا جاسکتا ہے، جبکہ صدر عبدالفتح السیسی کی حکومت عوامی ردعمل کے خوف سے ان کو رہا کرنے کے حق میں نہیں تھی۔
صدر عبدالفتح السیسی حسنی مبارک کے دور اقتدار میں ملٹری انٹیلی جنس کے سربراہ تھے، اور انھوں نے سنہ 2013 میں محمد مرسی کی حکومت کا تختہ پلٹ کیا تھا۔
ایسا خیال کیا جاتا ہے کہ مصر میں سابق صدر حسنی مبارک کے انتقال کی افواہیں پھیل گئی تھیں، حالانکہ ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ ان کی حالت نازک تھی۔
سرکاری حکام کے مطابق جیل میں عمر قید کی سزا کاٹنے والے حسنی مبارک آٹھ روز سے کومے میں تھے، جبکہ اتوار کو مبارک کی اہلیہ اور دو بیٹوں نے ان کی عیادت کی تھی۔
ڈاکٹرز کا کہنا تھا کہ حسنی مبارک کھانے کے قابل نہیں ہیں اور انہیں صرف مائع غذا دی جارہی تھی۔