ETV Bharat / bharat

'موثر انسانی وسائل ملک کے لیے حقیقی مضبوطی' - بھارت میں مردم شماری 2021

ملک میں اب کچھ وقت سے معیشت میں سست روی کا مشاہدہ کیا جا رہا ہے لیکن اس کے باوجود بیرون ممالک میں کام کررہے بھارتی ورکروں سے لے کر سافٹ ویئر انجینیئروں تک کے غیر ملکی زرمبادلہ کی آمد میں ایک تسلسل پایا جا رہا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ماہر انسانی وسائل ملک کی معیشت کو ایک مضبوطی فراہم کرتے ہیں۔

موثر انسانی وسائل ملک کے لیے حقیقی مضبوطی
موثر انسانی وسائل ملک کے لیے حقیقی مضبوطی
author img

By

Published : Mar 6, 2020, 3:57 PM IST

ملک میں مردم شماری کا عمل ہر دس برس بعد ہوتا ہے اور اگلے برس یکم اپریل سے پورے ملک میں یہ عمل ایک بار پھر سے شروع ہونے والا ہے۔ آزادی کے بعد سے اب تک ملک میں چھ بار آبادی کا اعداد و شمار کیا جا چکا ہے لیکن اس بار یہ مردم شماری ذات کی بنیاد پر کیے جانے کا اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔

جو اقتصادی ترقی موثر انسانی وسائل کے بل بوتے پر حاصل کی جاتی ہے، اسے' آبادیاتی منافع' قرار دیا جاتا ہے ۔ حالیہ برسوں میں قومی اور علاقائی جماعتیں لوگوں سے وعدہ کرتی آئی ہیں کہ وہ عوامی بہبود اور فلاحی اسکیموں کو متعاراف کروائیں گے۔ آبادی کے بارے میں معلومات ایسی اسکیموں کو وضع کرنے کے لئے کلیدی اہمیت کی حامل ہے۔ یہ ریزرویشن کوٹہ کو مختص کرنے کیلئے بھی اہم تصور کیا جاتا ہے۔

سال 2019 میں اقوام متحدہ کے ورلڈ پاپولیشن کی رپورٹ کے مطابق سنہ 2025 میں بھارت کی آبادی چین سے زیادہ ہو گی اور بھارت دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک بن جائے گا۔ بھارت آبادی پر قابو پانے کے لیے گزشتہ 50 برسوں سے فیملی پلاننگ منصوبے پر عمل پیرا ہے لیکن یہ منصوبہ سماجی اور اقتصادی عوامل کی نشاندہی کرنے میں ناکام ہوا ہے جس کی وجہ سے ملک کی آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ آبادی میں اضافے کی وجہ سے جو چیلنجز سامنے آ رہے ہیں، ان کا ایک نئے زاویے سے تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔

عام طور پر یہ مانا جارہا ہے کہ اگر آبادی میں اضافہ ایسے ہی اضافہ ہوتا رہا تو شہریوں کی فی کس آمدنی میں کمی آئیگی اور یہ ملک کی اقتصادی حالت کو مزید کمزور بنانے کا باعث بنے گا۔لیکن 21 ویں صدی میں لوگوں کے رویوں اور ان کی ضرورتوں میں تبدیلی آئی ہے ۔والدین پہلے بچوں کو بڑھاپے کا سہارا اور مستقبل میں کمائی کا ذریعہ سمجھتے تھے اس لئے وہ زیادہ بچے پیدا کرتے تھے ۔بہتر طبی سہولیات کی وجہ سے اب شرح اموات میں کمی آئی ہے ۔ناخواندگی اور پرانی روایات کی وجہ سے آبادی میں حد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے ۔مختلف نسل مذاہب اور تہذیب کی وجہ سے بھی آبادی میں اضافہ ہو اہے ۔

ایشیا میں بھارت کی آبادی کی اضافی شرح سنہ 1951 سے سنہ 1971 تک 21 فیصد، سنہ 1971 سے سنہ 1991 تک 22 فیصد اور سنہ 1991 سے سنہ 2011 تک اس میں مزید کمی درج ہوئی اور یہ 18 فیصد تک پہنچ گئی۔سنہ 2011 سے سنہ 2016 تک اس میں مزید کمی دیکھی گئی اور یہ شرح 13 فیصد تک جا پہنچی۔

سنہ 2019 کے اقتصادی جائزے میں کہا گیا کہ سنہ 2011 سے سنہ 2012 میں آبادی کی اوسط شرح 11 فیصد تھی اور یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ سنہ 2021 سے 2031 میں اس میں 70 فیصد اضافہ ہوگا، جبکہ سنہ 2013 سے سنہ 2014 میں یہ 50 فیصد تک بڑھ جائے گا۔

یہ ایک تصدیق شدہ امر ہے کہ ملک میں مردوں کے مقابلے میں خواتین کی تعداد کم ہے۔ ملک میں نوجوانوں کی تعدا د میں اضافہ ہوتاجارہا ہے ۔اگلی ایک دہائی میں 20 سے 59 سال تک کا گروپ ملک کی افرادی قوت کا سب سے بڑا حصہ ہو گا۔سنہ 2021 میں اوسط عمر 59 سال کی ہو گی ۔

سیمپل رجسٹریشن سسٹم ڈاٹا کے مطابق بہار، اتر پردیش، ہریانہ، مدھیہ پردیش، جھارکھنڈ اور چھتیس گڑھ کو نہ صرف اپنی آبادی کو کم کرنے بلکہ اسے استحکام بخشنے کیلئے اقدامات اٹھانے ہوں گے ۔میعار زندگی میں 'آبادیاتی منافع' شہری آبادی میں اضافہ اور آمدنی میں عدم مساوات مستقبل کے چیلنجز ہیں ۔

سنہ 2017 کی انڈیا ایجنگ سروے رپورٹ کے مطابق سنہ 2015میں 60 سال کی عمر والے ملک کی آبادی کا 8 فیصد تھے ۔سال 2050میں یہ شرح 19فیصد تک پہنچ جائیگی ۔لوگوں کو ایک اہل انسانی وسائل کے طور ابھرنے کی ضرورت ہے ۔اس ضمن میں ابتدائی اور ہائر سیکنڈری سطح کی تعلیم میں اصلاحات کی ضرورت ہے ۔طلباء میں ریسرچ کے رجحان کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے۔'سکل انڈیا' جیسے پروگرام نوجوانوں میں ہنر کو پیدا اور اسے فروغ دینے میں مدد گار ثابت ہو سکتا ہے ۔دیہی معیشت کو فروغ دینے کیلئے پیشہ ورانہ تعلیمی ہنر کو مضبوط کیا جانا چاہئے ۔

ملک میں اب کچھ وقت سے معیشت میں سست روی کا مشاہدہ کیا جارہا ہے، لیکن اس کے باوجود بیرون ممالک میں کام کررہے بھارتی ورکروں سے لیکر سافٹ ویئر انجینئروں تک کے غیر ملکی زرمبادلہ کی آمد میں ایک تسلسل پایا جارہا ہے ۔اس سے پتہ چلتا ہے کہ ماہر انسانی وسائل ملک کی معیشت کو ایک مضبوطی فراہم کرتے ہیں۔

چین میں دنیا کی سب سے زیادہ آبادی ہے لیکن اس کے باوجود اس ملک کے لوگوں نے تمام شعبوں میں اپنے ہنر کو فروغ دے کر تمام خصوصیات حاصل کی ہیں، تاکہ ان کا ملک دنیا کا طاقت ترین ملک بن سکے ۔چین اب امریکہ کو بھی چیلنج دے رہا ہے ۔چین اس بات کی ایک مثال بن رہا ہے کہ زیادہ آبادی بھی ملک کیلئے رحمت ثابت ہو سکتی ہے اور اس کے برعکس زیادہ آبادی ایک لعنت ثابت بھی ہو سکتی ہے اگر وہ موثر اور اہل نہ ہو ۔

ایک تصدیق شدہ امر ہے کہ اگر ایک عورت پڑھی لکھی ہو تو پورا گھرانہ پڑھا لکھا ہوتا ہے۔'بیٹی پڑھاؤ، بیٹی بچاؤ 'جیسی اسکیم کی اگر اچھی عمل آوری ہو تو اس سے ملک کی بیٹیاں انسانی وسائل کا خزانہ ثابت ہو سکتی ہیں اور وہ ملک کی تعمیر و ترقی میں ایک اہم کردار ادا کر سکتی ہیں ۔اس طرح کے پروگرام ملک کو آبادیاتی منافع دے سکتے ہیں۔

اس سے روزگار کے مواقع بڑھ جائیں گے اور بے روزگاری میں کمی واقع ہو جائے گی۔ اقتصادی ترقی کو ایک حقیقت کا پس منظر ملے گا۔ اس لئے حکومت جن اسکیموں کو عمل میں لا رہی ہے، اس کے شہری دولت پیدا کرنے کے مراکز میں تبدیل ہونا چاہیے۔ ملک کی معیشت اہل انسانی وسائل کی دولت سے ہی مستحکم ہو سکتی ہے اور صرف ایسی صورت میں ہی بڑھتی آبادی ملک کے لیے ایک اثاثہ ثابت ہو سکتی ہے۔

ملک میں مردم شماری کا عمل ہر دس برس بعد ہوتا ہے اور اگلے برس یکم اپریل سے پورے ملک میں یہ عمل ایک بار پھر سے شروع ہونے والا ہے۔ آزادی کے بعد سے اب تک ملک میں چھ بار آبادی کا اعداد و شمار کیا جا چکا ہے لیکن اس بار یہ مردم شماری ذات کی بنیاد پر کیے جانے کا اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔

جو اقتصادی ترقی موثر انسانی وسائل کے بل بوتے پر حاصل کی جاتی ہے، اسے' آبادیاتی منافع' قرار دیا جاتا ہے ۔ حالیہ برسوں میں قومی اور علاقائی جماعتیں لوگوں سے وعدہ کرتی آئی ہیں کہ وہ عوامی بہبود اور فلاحی اسکیموں کو متعاراف کروائیں گے۔ آبادی کے بارے میں معلومات ایسی اسکیموں کو وضع کرنے کے لئے کلیدی اہمیت کی حامل ہے۔ یہ ریزرویشن کوٹہ کو مختص کرنے کیلئے بھی اہم تصور کیا جاتا ہے۔

سال 2019 میں اقوام متحدہ کے ورلڈ پاپولیشن کی رپورٹ کے مطابق سنہ 2025 میں بھارت کی آبادی چین سے زیادہ ہو گی اور بھارت دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک بن جائے گا۔ بھارت آبادی پر قابو پانے کے لیے گزشتہ 50 برسوں سے فیملی پلاننگ منصوبے پر عمل پیرا ہے لیکن یہ منصوبہ سماجی اور اقتصادی عوامل کی نشاندہی کرنے میں ناکام ہوا ہے جس کی وجہ سے ملک کی آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ آبادی میں اضافے کی وجہ سے جو چیلنجز سامنے آ رہے ہیں، ان کا ایک نئے زاویے سے تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔

عام طور پر یہ مانا جارہا ہے کہ اگر آبادی میں اضافہ ایسے ہی اضافہ ہوتا رہا تو شہریوں کی فی کس آمدنی میں کمی آئیگی اور یہ ملک کی اقتصادی حالت کو مزید کمزور بنانے کا باعث بنے گا۔لیکن 21 ویں صدی میں لوگوں کے رویوں اور ان کی ضرورتوں میں تبدیلی آئی ہے ۔والدین پہلے بچوں کو بڑھاپے کا سہارا اور مستقبل میں کمائی کا ذریعہ سمجھتے تھے اس لئے وہ زیادہ بچے پیدا کرتے تھے ۔بہتر طبی سہولیات کی وجہ سے اب شرح اموات میں کمی آئی ہے ۔ناخواندگی اور پرانی روایات کی وجہ سے آبادی میں حد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے ۔مختلف نسل مذاہب اور تہذیب کی وجہ سے بھی آبادی میں اضافہ ہو اہے ۔

ایشیا میں بھارت کی آبادی کی اضافی شرح سنہ 1951 سے سنہ 1971 تک 21 فیصد، سنہ 1971 سے سنہ 1991 تک 22 فیصد اور سنہ 1991 سے سنہ 2011 تک اس میں مزید کمی درج ہوئی اور یہ 18 فیصد تک پہنچ گئی۔سنہ 2011 سے سنہ 2016 تک اس میں مزید کمی دیکھی گئی اور یہ شرح 13 فیصد تک جا پہنچی۔

سنہ 2019 کے اقتصادی جائزے میں کہا گیا کہ سنہ 2011 سے سنہ 2012 میں آبادی کی اوسط شرح 11 فیصد تھی اور یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ سنہ 2021 سے 2031 میں اس میں 70 فیصد اضافہ ہوگا، جبکہ سنہ 2013 سے سنہ 2014 میں یہ 50 فیصد تک بڑھ جائے گا۔

یہ ایک تصدیق شدہ امر ہے کہ ملک میں مردوں کے مقابلے میں خواتین کی تعداد کم ہے۔ ملک میں نوجوانوں کی تعدا د میں اضافہ ہوتاجارہا ہے ۔اگلی ایک دہائی میں 20 سے 59 سال تک کا گروپ ملک کی افرادی قوت کا سب سے بڑا حصہ ہو گا۔سنہ 2021 میں اوسط عمر 59 سال کی ہو گی ۔

سیمپل رجسٹریشن سسٹم ڈاٹا کے مطابق بہار، اتر پردیش، ہریانہ، مدھیہ پردیش، جھارکھنڈ اور چھتیس گڑھ کو نہ صرف اپنی آبادی کو کم کرنے بلکہ اسے استحکام بخشنے کیلئے اقدامات اٹھانے ہوں گے ۔میعار زندگی میں 'آبادیاتی منافع' شہری آبادی میں اضافہ اور آمدنی میں عدم مساوات مستقبل کے چیلنجز ہیں ۔

سنہ 2017 کی انڈیا ایجنگ سروے رپورٹ کے مطابق سنہ 2015میں 60 سال کی عمر والے ملک کی آبادی کا 8 فیصد تھے ۔سال 2050میں یہ شرح 19فیصد تک پہنچ جائیگی ۔لوگوں کو ایک اہل انسانی وسائل کے طور ابھرنے کی ضرورت ہے ۔اس ضمن میں ابتدائی اور ہائر سیکنڈری سطح کی تعلیم میں اصلاحات کی ضرورت ہے ۔طلباء میں ریسرچ کے رجحان کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے۔'سکل انڈیا' جیسے پروگرام نوجوانوں میں ہنر کو پیدا اور اسے فروغ دینے میں مدد گار ثابت ہو سکتا ہے ۔دیہی معیشت کو فروغ دینے کیلئے پیشہ ورانہ تعلیمی ہنر کو مضبوط کیا جانا چاہئے ۔

ملک میں اب کچھ وقت سے معیشت میں سست روی کا مشاہدہ کیا جارہا ہے، لیکن اس کے باوجود بیرون ممالک میں کام کررہے بھارتی ورکروں سے لیکر سافٹ ویئر انجینئروں تک کے غیر ملکی زرمبادلہ کی آمد میں ایک تسلسل پایا جارہا ہے ۔اس سے پتہ چلتا ہے کہ ماہر انسانی وسائل ملک کی معیشت کو ایک مضبوطی فراہم کرتے ہیں۔

چین میں دنیا کی سب سے زیادہ آبادی ہے لیکن اس کے باوجود اس ملک کے لوگوں نے تمام شعبوں میں اپنے ہنر کو فروغ دے کر تمام خصوصیات حاصل کی ہیں، تاکہ ان کا ملک دنیا کا طاقت ترین ملک بن سکے ۔چین اب امریکہ کو بھی چیلنج دے رہا ہے ۔چین اس بات کی ایک مثال بن رہا ہے کہ زیادہ آبادی بھی ملک کیلئے رحمت ثابت ہو سکتی ہے اور اس کے برعکس زیادہ آبادی ایک لعنت ثابت بھی ہو سکتی ہے اگر وہ موثر اور اہل نہ ہو ۔

ایک تصدیق شدہ امر ہے کہ اگر ایک عورت پڑھی لکھی ہو تو پورا گھرانہ پڑھا لکھا ہوتا ہے۔'بیٹی پڑھاؤ، بیٹی بچاؤ 'جیسی اسکیم کی اگر اچھی عمل آوری ہو تو اس سے ملک کی بیٹیاں انسانی وسائل کا خزانہ ثابت ہو سکتی ہیں اور وہ ملک کی تعمیر و ترقی میں ایک اہم کردار ادا کر سکتی ہیں ۔اس طرح کے پروگرام ملک کو آبادیاتی منافع دے سکتے ہیں۔

اس سے روزگار کے مواقع بڑھ جائیں گے اور بے روزگاری میں کمی واقع ہو جائے گی۔ اقتصادی ترقی کو ایک حقیقت کا پس منظر ملے گا۔ اس لئے حکومت جن اسکیموں کو عمل میں لا رہی ہے، اس کے شہری دولت پیدا کرنے کے مراکز میں تبدیل ہونا چاہیے۔ ملک کی معیشت اہل انسانی وسائل کی دولت سے ہی مستحکم ہو سکتی ہے اور صرف ایسی صورت میں ہی بڑھتی آبادی ملک کے لیے ایک اثاثہ ثابت ہو سکتی ہے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.