آر بی آئی کے 'اکنامک کیپٹل فریم ورک' کا جائزہ لینے کے لئے ڈاکٹر ومل جالان کی صدارت میں تشکیل دی گئی کمیٹی نے اسی ماہ حکومت کو سونپی اپنی رپورٹ میں یہ بات کہی ہے۔ کمیٹی نے دوسری باتوں کے ساتھ ریزرو بینک کے مالی سال میں تبدیلی کرتے ہوئے اپریل مارچ کرنے کی بھی سفارش کی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ 10 برس میں ریزرو بینک کے بیلنس شیٹ کی اوسط سالانہ ترقی کی شرح 9.5 فیصد رہی ہے، جبکہ 2013.14 سے 2017.18 کے پانچ سال کے دوران اس کی اوسط ترقی کی شرح 8.6 فیصد رہی۔کمیٹی نے کہا ہے کہ بیلنس شیٹ کی ترقی کی شرح میں کمی 2016.17 میں کی گئی نوٹ بندی تھی۔
قابل ذکر ہے کہ حکومت نے 9 نومبر 2016 سے 500 روپے اور ایک ہزار روپے کے اس وقت گردش میں جاری ان دونوں نوٹوں کو عام استعمال کے لئے غیر قانونی قرار دے دیا تھا۔ اس طرح اس وقت گردش میں موجود تمام نوٹوں کی مجموعی قیمت کی 86 فیصد محدود ہوگئی۔
یہ وہی رپورٹ ہے جس کی سفارش کی بنیاد پر مرکزی بینک نے 1.76 لاکھ کروڑ روپے کی اضافی رقم حکومت کو منتقل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
کمیٹی نے اپنی سفارشات مزید کہا ہے کہ ریزرو بینک کا اور حکومت کا مالی سال ایک ہونا چاہیے۔ موجودہ وقت میں ریزرو بینک کا مال سال یکم جولائی سے 30 جون کا ہوتا ہے۔ اسے بدل کریکم اپریل سے 31 مارچ کرنے کے لئے کہا گیا ہے جو حکومت کا مالی سال ہونے کے ساتھ ہی کارپوریٹ دنیا کا بھی مالی سال ہے۔ رپورٹ میں نے کہاگیا ہے کہ اس سے ریزرو بینک کی طرف سے حکومت کو دیئے جانے والے عبوری منافع کو لے کر پیدا ہونے والی بے ضابطگیاں دور کی جا سکیں گی۔
کمیٹی کی رائے ہے کہ روایتی طور پر ریزرو بینک کا مالی سال جولائی جون ملک کے زراعت کےموسم کو دیکھتے ہوئے فیصلہ کیا گیا تھا۔ لیکن، موجودہ میں اب اس کی ضرورت نہیں ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مالی سال ایک ہونے سے ریزرو بینک حکومت کو دی جانے والی سرپلس رقم کا بہتر اندازہ لگاسکے گا۔ اس مالی سال کے درمیان عبوری منافع دینے کی ضرورت نہیں رہ جائے گی. صرف غیر معمولی حالات میں ہی ایسا کرنے کی ضرورت ہو گی۔