کسی بھی قوم کی تقدیر سازی میں ایک تعلیمی ادارہ اہم کردار ادا کرتا ہے، کسی بھی قوم اور ملک کے مستقبل کا تعین ایک کلاس روم میں ہوتا ہے۔ بھارت رتن اور سابق صدر ہند ڈاکٹر اے پی جی عبدالکلام کی صلاح ہے کہ 'اساتذہ بنیادی سطح پر طلبا کی تخلیقی صلاحت کی بنیاد ڈالتے ہیں، یہ بچوں کی کامیابی کیلئے اہم ہے'۔
یونیسکو کی طرف سے حالیہ تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ بھارت بنیادی یا پرائمری تعلیم میں 50 سال پیچھے ہے ۔ فروغ انسانی وسائل کی وزارت کی طرف سے مرتب شدہ اعدادوشمار میں بتایا گیا ہے کہ چندی گڑھ، گجرات، کیرالہ، مہاراشٹرا اور دہلی سنہ 2018-19 میں حصول تعلیم کے پائیدان پر سب سے اوپر ہے جبکہ اروناچل پردیش، میگھالیہ، ناگالینڈ اور منی پور اس پائیدان پر سب سے نیچے ہیں۔
بے کار کمپیوٹر
مہاراشٹر، جھارکھنڈ اور مغربی بنگال نے اپنے اسکور میں اگر چہ اضافہ کیا ہے، تاہم اس فہرست میں آندھرا پردیش بہت پیچھے کھسک گیا ہے۔ ڈھانچوں کے اعتبار سے تلنگانہ 30 ویں پائیدان پر ہے۔ مختلف ریاستوں اور مرکزی زیر انتظام علاقوں میں قائم اسکولوں میں بدستور بیت الخلاؤں اور پینے کے پانی کی قلت ہے۔
کئی اسکولوں میں کمپیوٹروں کا استعمال نہیں کرنا خطرے کی گھنٹی اور باعث تشویش ہے۔ چندی گڑھ میں اساتذہ کو بھرتی کرنے اور ہماچل پردیش میں پیشہ وارانہ کورسوں کے انعقاد نے ان ریاستوں کو منفرد بنایا ہے۔
غور طلب بات ہے کہ گجرات گزشتہ برس کے مقابلے میں کیرالہ سے دو قدم آگے بڑھ چکا ہے۔ باریک بینی سے احاطہ کرنے سے اس بات کی عکاسی ہوتی ہے کہ ریاستی سطح پر بنیادی یا پرائمری تعلیم کو معقول اہمیت نہ دینا فکر مند شہریوں کیلئے باعث تشویش ہے۔
بغیر کتب خانوں و میدانوں کے اسکول
ہانگ کانگ میں 6 اور 12 برس کے بچوں کیلئے انگریزی، چینی، ریاضی اور جنرل اسٹڈئز کے علاوہ موسیقی اور کھیل کود کی تعلیم لازمی ہے۔بھارت کی کئی ریاستوں اور مرکزی زیر انتظام والے علاقوں کے ہزاروں اسکولوں میں کُتب خانوں اور میدانوں کی قلت ہیں۔ جاپا ن تہذیب و تمدن میں نوعمری سے ہی بچوں کو بزرگوں اور اساتذہ کو عزت دینے کی تربیت دیتا ہے۔ فن لینڈ اساتذہ کو ڈاکٹروں اور وکلاء کے برابر تنخواہیں دینے اور انکے برابر عزیت دینے کیلئے جانا جاتا ہے۔
ملک بھر میں معقول اخلاقی تعلیم میں کمی کو ہر سطح پر محسوس کیا جا رہا ہے۔طلاب میں بے قابو مجرمانہ رجحان، منشیات کی لت، عصمت ریزیاں اور سگریٹ نوشی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ دوسری جانب مایوسی اور نامیدی میں بھی اضافہ ہو رہا ہے، جبکہ بیشتر نوجوان ذہنی طور پر منتشر ہو رہے ہیں اور وہ انکے کمزور تعلیم سازی اور کم عمری میں کھوکھلی بنیادی تعلیم کی وجہ سے مسابقتی امتحانات کا سامنا کرنے میں ناکام ہو رہے ہیں ۔
موجودہ صورتحال میں گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ طلاب کو چھوٹی اور متوسط نوکریوں کے حصول کیلئے خصوصی تربیتی کورسوں کا رخ کرنا پڑتا ہے، جو انکی غیر منظم پرائرمی تعلیم کی طرف اشارہ کرتی ہے۔یہ بات فکر مندی کی باعث ہے کہ بھارت میں45فیصد گریجویٹ کسی بھی کام کیلئے معقول نہیں ہیں۔
ابتدائی تعلیم میں شخصیت سازی، کردار سازی اور سائنس و ٹیکنالوجی کے بنیاد کو مضبوطی فراہم کرنا مستقبل کے سائنس دانوں اور دانشوروں کی تخلیق کیلئے نہایت ہی لازمی ہے۔ تعلیمی سطح پر اگر ان کمیوں اور کوتاہیوں کو دور کیا جائے گا تو ملک کو درپیش مسائل کو ابتدائی سطح پر ہی ختم کیا جاسکتا ہے۔
تعلیم ہی صرف ایک شخص کو بنی نوع انسان میں تبدیل کرسکتی ہے
مرکزی وزراء نے جیسے ماضی میں کہا ہے کہ تعلیم ہی ایک شخص کو بنی نوع انسان میں تبدیل کرتی ہے، تاہم زمینی سطح پر اس جانکاری کی کمی پائی جاتی ہے۔عالمی بن کا یہ منطق کہ ملک کی معیشت میں اضافہ تب ہی ممکن ہے جب اس کے بچے معقول پرائمری تعلیم سے آراستہ ہوں اور جو برحق ہے ۔اس قیمتی حقیقت کا ادارک کرتے ہوئے ناروئے، نیوزی لینڈ،برطانیہ اور مریکہ جیسے ملک تعلیمی شعبے سے قریب 6فیصد جی ڈی پی وصول کرتے ہیں۔مناسب رقومات کا تصرف کرکے یہ ممالک اپنے اسکولوں کے کلاس رومز میں مضبوط و مستحکم خود اعتمادی تیار کرتے ہیں ۔سنگا پور اعلیٰ تدریسی معیار کی حصولیابی کیلئے اپنے اساتذہ کو وقت وقت پر معقول ہنرمندی اور تربیت کے اعتبار سے ایک نئے مقام کے طور پر ابھر رہا ہے۔
مناسب تربیت کے بغیر تعلیمی عمل
کئی رپورٹوں میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ بھارت فی طالب علم پر فی کس خرچہ کی شرح میں 62ویں پائیدان پر ہے، جبکہ اساتذہ و طلاب تناسب،پرائمری و ثانوی سطح کی تعلیم پر سرکاری کوتاہیوں کی عکاسی کرتی ہے۔دنیا بھر میں چین، ہانگ کانگ، جنوبی کوریا، تھائی لینڈ اور امریکہ کے 7معروف اداروں میں کچھ برس قبل کی گئی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ابتدائی تعلیم کے لیے اساتذہ کی تربیت کا معیار ہی مضبوط ترقی کی بنیادی وجہ ہے۔
اس کے برعکس سرکاری اعدادو شمار کے مطابق یہاں سینکڑوں اور ہزاروں غیر تربیت یافتہ اساتذہ کا عملہ ہے، جو اعلیٰ تعلیم یافتہ نہیں ہے۔ آئندہ دو برسوں کے دوران یہ اساتذہ بہتر تربیت یافتہ ہوں گے تاکہ نوجوان بھارت میں ابھرتے ہوئے مواقع کو حاصل کریں۔ جتنی جلدی ریاستی اور مرکزی حکومت پرائمری تعلیم کو مضبوط و مستحکم کرنے کیلئے اقدامات اٹھائے گی اتنی ہی جلدی ملک کا آج اور مستقبل بہتر ہوگا۔