ڈاکٹر فیروز خان کی تقرری کو لے کر بی ایچ یو میں طلبا پچھلے 31 دنوں سے احتجاج کر رہے ہیں، گذشتہ روز بی ایچ یو کے شعبۂ آیوروید نے انھیں تقرری نامہ سونپ دیا ہے۔
واضح رہے کہ ڈاکٹر فیروز خان نے سنسکرت اور آیوروید دونوں فیکلٹی کے امیدواری فارم بھرے تھے۔ سنسکرت میں تقرری پر احتجاج کے بعد انھوں نے شعبہ آیوروید میں 29 نومبر 2019 کو انٹرویو دیا تھا، جس کا لفافہ سات دسمبر کو ایکزیکیوٹیو کمیٹی نے کھولا اور سر فہرست نام فیروز خان کا تھا۔
کمیٹی نے گذشتہ روز تقرری نامہ فیروز خان کو سونپ دیا ہے۔ اصول کے مطابق تقرری نامہ ملنے کے بعد ایک مہینے کے اندر جوائننگ کرنی ہوتی ہے۔ اب فیروز خان کو یہ فیصلہ لینا ہے کہ وہ سنسکرت اور آیوروید شعبے میں کس کو ترجیح دیتے ہیں۔
آیوروید فیکلٹی کے ڈین پروفیسر یامنی بھوشن ترپاٹھی نے بتایا کہ 29 نومبر 2019 کو فیروز خان نے ایک امیدوار کے طور پر یہاں بھی انٹرویو دیا تھا اور سات دسمبر کو ان کا لفافہ کھولا گیا، ان کی تقرری آیوروید فیکلٹی کے سمویتا شعبہ میں ہوئی، اصول کے مطابق تقرری نامہ ملنے کے بعد ایک مہینے کے اندر جوائن کرنا ہوتا ہے۔
پروفیسر یامنی بھوشن نے مزید کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ وہ شعبہ آیوروید میں آئیں، کیوں کہ ان کے جیسا سنسکرت کا اسکالر شعبے کو مزید آگے بڑھائے گا۔
غور طلب ہے کہ شعبہ سنسکرت میں ڈاکٹر فیروز خان کی تقرری نومبر کے شروع میں ہوئی تھی، جب طلبا کو اس بات کا پتہ چلا تو انھوں نے یہ کہتے ہوئے کہ ودیا دھرم شعبے میں غیر ہندوؤں کی تقرری غیر آئینی ہے احتجاج کرنا شروع کردیا، اور وزیر اعظم سے لے کر صدر جمہوریہ تک کو خط لکھا کہ ان کو برخاست کیا جائے۔ اور پچھلے دنوں ڈاکٹر خان کے خلاف بی ایچ یو میں پوسٹر بھی لگنا شروع ہوگئے تھے۔
بی ایچ یو کا یہ معاملہ ملکی سطح پر خوب چرچے میں رہا، متعدد دانشوروں اور سیاسی رہنماؤں نے طلبا کے اقدام کو غلط ٹھہرایا اور فیروز خان کی حمایت میں اتر آئے۔ باوجود اس کے طلبا برابر احتجاج کرتے رہے۔