ریاست مہاراشٹر میں جنوبی ممبئی کے مسلم اکثریتی علاقوں کی عوام کئی دہایوں سے عمارت منہدم ہو جانے کی اس واردات کو اپنی آنکھوں سے دیکھتی رہی ہے اور ہر مرتبہ حکومت ان علاقوں میں از سر نو تعمیر کی بات کرتی ہے، لیکن موسم کے ساتھ ساتھ حکومت کے یہ قول بھی بدل جاتا ہے اور پھر بارش کے موسم میں ہر برس لوگوں کا موت کے منہ میں جانے کا سلسہ جاری رہتا ہے۔
سابق رکن اسمبلی فیاض خان کہتے ہیں کہ جنوبی ممبئی انگریزوں کے زمانے کی بستیاں ہیں، عمارتیں قدیم ہیں جو اب کھوکھلی ہو چکی ہیں اور یہی حادثے کا سبب بھی بنتے ہیں، حکومت ان علاقوں پر توجہ کیوں نہیں دیتی، ممبئی کا تصور غیر ملکی یا دوسری ریاست کے باشندوں کے لیے آسمان کو چومتی عمارتیں رومن گاتھک طرز پر بنی قدیم عمارتیں ہیں، جو آج بھی مضبوط مستحکم ہیں، لیکن ممبئی کا سب سے اہم پہلو جو شاید خیالوں سے دماغی نقشوں سے غائب ہو جاتا ہے وہ ممبئی کی مخدوش عمارتیں، چھوٹی چھوٹی کھولیاں جہاں اقلیتوں کا آشیانہ سب سے زیادہ ہے، انہیں چھوٹی چھوٹی کالونیوں اور تنگ گلیوں میں زندگی کے خواب بن جاتے ہیں، جو کبھی تیز بارش کی نذر ہو جاتی ہیں اور اس عوام کے وہ سارے خواب چکنا چور ہو جاتے ہیں۔
ممبئی کی سیاسی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ہر تیسرے اسمبلی حلقہ میں آپ کو مسلم نمائندہ مل جائے گا۔ ممبئی میں مسلمانوں کے ووٹ بینک کو سہارا بنا کر کئی بڑے مسلم چہرے آج مہاراشٹر کی سیاست میں اپنی روٹیاں سینک رہے ہیں، شہر کے مسلمانوں کا رجحان ہمیشہ کانگریس اور این سی پی کی جانب ہی رہا ہے ، جس کے سبب مسلم اکثریتی علاقوں سے لگاتار مسلم امیدواروں نے اپنی سیاسی کرسی کو تو مضبوط کیا ہے لیکن ترقی کے نام پر کوئی خاص موجودگی درج کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
مسلم سیاست کے دبدبہ کا تازہ ثبوت شہر کی تاریخ کی سیاست رہی ہے، کئی دہایوں سے مسلم ایم ایل اے ان علاقوں میں بطور رکن اسمبلی قابض رہی رہے ہیں۔ چاندی ولی، ساکی ناکہ ، ملاڈ ، باندرہ ،ممبا دیوی سے مانخورد شیواجی نگر ،کرلا بھنڈی بازار ، گوونڈی جیسے کئی بڑے مسلم اکثریتی علاقوں سے مسلم چہرے اسمبلی میں پہنچتے رہے ہیں لیکن یہاں پر ترقی کے نام پر کچھ نہیں ہو، مخدوش بوسیدہ عمارتیں انکی ناکامی کی داستان آج بھی بیان کر رہی ہیں۔