ETV Bharat / bharat

کیا الیکٹورل بانڈز کی وجہ سے سیاسی فنڈنگ کے نظام میں شفافیت آئی ہے ؟

author img

By

Published : Mar 10, 2020, 1:35 PM IST

ماہر نفسیات اور سی ایس ڈی ایس کے پروفیسر سنجے کمار اور صحافت کے طالب علم نیل مادھو کے مطابق الیکٹوریل بانڈز متعارف کرانے کے عمل نے سیاسی فنڈنگ اور اس سے متعلق سوالات کو پھر سے موضوع بحث بنا دیا ہے ۔انتخابی سیاسی نظام میں اصلاحات لانے کے حوالے سے ہمیں اس پر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔

کیا الیکٹورل بانڈز کی وجہ سے سیاسی فنڈنگ کے نظام میں شفافیت آئی ہے ؟
کیا الیکٹورل بانڈز کی وجہ سے سیاسی فنڈنگ کے نظام میں شفافیت آئی ہے ؟

چند دن قبل امور خزانہ کے وزیر مملکت انوراگ ٹھاکُر نے پارلیمنٹ کو مطلع کیا کہ الیکشن کمیشن آف انڈیا انتخابات کے لئے حکومت کی فنڈنگ کے حق میں نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن آف انڈیا نے حکومت کوبتایا ہے کہ وہ حکومت کی جانب سے الیکشن کے لئے فنڈ مہیا کرنے کے حق میں نہیں ہے۔ کیونکہ ایسا کئے جانے کی صورت میں الیکشن کمیشن آف انڈیا اُمیدواروں کی جانب سے انتخابی مہم کے دوران خرچ کئے جانے والےاُن کے اپنے پیسے یا کسی دوسروں کی جانب سے ان پر لگائے جانے والے پیسوں پر نظر گزر نہیں رکھ پائے گا۔وزیر موصوف نے مزید کہا کہ الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ اصل مسئلے کی تدارک کے لئے قواعد و ضوبط میں سخت تبدیلیاں لانی ہونگی تاکہ سیاسی جماعتوں کی جانب سے فنڈنگ حاصل کرنے اور پھر اسے خرچ کرنے کے معاملات میں شفافیت لائی جاسکے۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ الیکشن کمیشن نے وزیر اعظم کی یہ تجاویز بھی مسترد کردی تھی جن میں انہوں نے کہا تھا کہ حکومت الیکشن لڑنے کے لئے فنڈ مہیا کرے گی اور لوک سبھا اور ریاستوں کےانتخابات بیک وقت منعقد کرائے جائیں، تاکہ حکومت اور انتخابی مشنری کا وقت بچ جائے ۔یہ تجاویز وزیر اعظم نے نوٹ بندی کے اقدام کے بعد پیش کی تھی۔

باوجود اس کے کہ الیکشن کمیشن آف انڈیا نے انتخابات کے لئے حکومت کی فنڈنگ کی تجویز مسترد کردی ہے۔وزیر موصوف نے پارلیمنٹ کو بتایا کہ سرکار نے بھارت میں انتخابی عمل کے دوران پیسے کی طاقت کا استعمال روکنے اور سیاسی فنڈنگ میں شفافیت لانے کا تہیہ کررکھا ہے۔

انہوں نے کہا کہ سیاسی فنڈنگ کے ذرائع اور نقدی کے لین دین کو روکنے کے لئے ہی حکومت نے انکم ٹیکس ایکٹ میں ترمیم کی ہے اور نامعلوم فنڈنگ کی حد محض دو ہزار کی حد مقرر کرلی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت نے سال 2018 میں الیکٹورل بانڈز بھی اسی مقصد سے متعارف کرائے ہیں۔ یہ الیکٹورل بانڈز اسٹیٹ بینک آف انڈیا کی مختلف شاخوں سے جاری کردیئے گئے ہیں۔ ان کے ذریعے ہی کوئی اپنی مرضی سے سیاسی جماعتوں کو ایک ہزار، دس ہزار، ایک لاکھ، دس لاکھ اور ایک کروڑ روپے کی رقومات عطیہ کرسکتا ہے۔

صرف اُن ہی سیاسی جماعتوں کو اس طرح کی فنڈنگ فراہم کی جاسکتی ہے، جنہوں نے حالیہ پالیمانی یا اسمبلی انتخابات میں کم از کم مجموعی ووٹ کا ایک فیصد حاصل کیا ہو۔اس طرح سے نئی نویلی سیاسی جماعتوں کے لئے فنڈنگ کا حصول ایک بڑا چیلنج ہوگا کیونکہ انتخابات میں کم از کم ایک فیصد ووٹ حاصل کرنا ایک نئی جماعت کے لئے کوئی آسان بات نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ ان ضوابط کا فائدہ صرف معروف سیاسی جماعتوں کو ہی حاصل ہوگا جن کی عوام میں مقبولیت ہو۔

لیکن اب سوال یہ کہ کیا الیکٹورل بانڈز جاری کرنے کے اس اقدام سے سیاسی فنڈنگ میں شفافیت آئی ہے ؟ قانون کی رو سے سیاسی جماعتوں کے لئے فنڈنگ کرنے والوں کی شناخت مخفی رکھنا لازمی ہے۔بجائے کالے دھن پر روک لگانے کے شناخت کو مخفی رکھے جانے کی اس قانونی مجبوری کا فائدہ بعض لوگ اور کمپنیاں اٹھا رہی ہیں۔انہیں اپنے کالے دھن کو سیاسی جماعتوں کو عطیہ کرنے کا موقع فراہم ہوتا ہے، کیونکہ ان کی شناخت صیغہ راز رکھی جاتی ہے۔

گزشتہ چند برسوں کے دوران انتخابی عمل کو درست کرنے کے نام پر مختلف سیاسی جماعتوں نے کافی زبانی جمع خرچ کیا ہے لیکن حق بات یہ ہے کہ موجودہ نظام نے اس ضمن میں صورتحال کو مزید مبہم بنا کر رکھ دیا ہے۔جبکہ حقیقی اصلاحات کے حوالے سےکوئی کام نہیں کیا گیا ہے۔

فارن کنٹری بیوشن (ریگولیشن ) ایکٹ میں ترمیم کے ذریعے سیاسی جماعتوں کو غیر ملکی فنڈنگ حاصل کرنے کی راہ ہموار ہوگئی ہے ۔ یہ ایک خطرناک بات ہے۔ بیرونی ممالک سے آنے والی فنڈنگ اور فنڈ فراہم کرنے والے کی شناخت مخفی رکھنے کا قانون خطرناک نتائج کا حامل ہوسکتا ہے۔اس کے نتیجے میں بیرونی ممالک سے آنے والی فنڈنگ سے ہمارا سیاسی نظام متاثر ہوکر رہے گا۔

الیکٹورل بانڈز کو انتخابی عمل میں اصلاحات لانے کی اُمید سے متعارف کرایا گیا تھا۔ لیکن اس عمل میں موجود نقائص نے بھارت کے انتخابی نظام میں پیسے کی طاقت کے کردار کو ختم کرنے میں درپیش مشکلات کو مزید عیاں کردیا ہے۔

الیکٹوریل بانڈز متعارف کرانے کے عمل نے سیاسی فنڈنگ اور اس سے متعلق سوالات کو پھر سے موضوع بحث بنا دیا ہے۔ہمیں اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس بحث کو انتخابی سیاسی نظام میں اصلاحات لانے کے حوالے سے بحث میں بدلنا چاہیے۔مختلف سیاسی جماعتوں نے بار بار انتخابی اصلاحات لانے کے عزم کا اظہار کیا ہے لیکن عملی طور پر اصلاحات لانے کے حوالے سے ان کی رفتار سست ہے ۔ در اصل وہ خود موجودہ نظام کی وجہ سےفائدہ حاصل کررہی ہیں۔

اس ضمن میں بہر حال اصلاحات لانی ہی ہونگی۔رائے دہندگان کو یہ جاننے کا حق حاصل ہونا چاہیے کہ سیاسی پارٹیوں کی فنڈنگ کے ذرائع کیا ہیں۔ کیوں ان ہی پارٹیوں میں سے کوئی ایک حکومت بناتی ہے اور پھر لوگوں کے لئے پالیسیاں مرتب کرتی ہے۔سیاسی فنڈنگ کے نظام میں شفافیت کے فقدان کی وجہ سے ہی اکثر حکومتوں پر الزامات عائد ہوتے رہتے ہیں کہ وہ بعض بڑی تجارتی کمپنیوں کے فوائد کے لئے کام کرتی ہیں اور لوگوں میں یہ تاثر بھی عام ہے کہ یہی تجارتی کمپنیاں سیاسی جماعتوں کی فنڈنگ کرتی ہیں۔

سابق یو پی اے سرکار پر بھی الزام عائد کیا گیا تھا کہ اس حکومت کی پشت پناہی کچھ صنعتی گھرانے کررہے ہیں۔ اب چھ سال بعد بھی اس حوالے سے صورتحال تبدیل نہیں ہوپائی ہے۔ سینٹر فار میڈیا سٹیڈیز کی ایک تحقیق کے مطابق سیاسی جماعتوں اور اُمیدواروں نے سال 2019کے لوک سبھا انتخابات کے دوران لگ بھگ 60ہزار کروڑ روپے خرچ کئے ہیں۔ماضی میں بھارت میں کسی بھی انتخابی عمل کے دوران اتنی خطیر رقم خرچ نہیں کی گئی ہے۔ اس لحاظ سے یہ اب تک کے سب سے مہنگے انتخابات ثابت ہوئے ہیں۔

بھارتی جنتا پارٹی نے اکیلے ان مجموعی اخراجات کا پینتالیس فیصد خرچ کیا ہے۔ ماضی کے مقابلے میں اب یہ بات یقینی بن گئی ہے کہ پیسہ انتخابات جیتنے کا ایک ہتھیار ثابت ہورہا ہے۔ انتخابی مہم کے دوران ایک اُمید وار کے اخراجات کی حد اسی لاکھ روپے مقرر ہے ۔لیکن تمام بااثر اُمید وار اس حد کو پار کرتے ہیں۔ یعنی وہ انتخابی مہم پر اس مقررہ حد سے زیادہ پیسہ خرچ کرتے ہیں۔اس صورتحال کے نتیجے پورا انتخابی منظر نامہ ارب پتیوں کا کھیل بن کر رہ گیا ہے جو سیاسی طاقت کے حصول کے لئے پیسہ جھونک دیتے ہیں۔ موجودہ نظام اُمیدواروں کی نگرانی کرنے اور انہیں جوابدہ بنانے میں ناکام ثابت ہورہا ہےجبکہ اس ضمن میں الیکٹورل بانڈز بھی کوئی زیادہ فائدہ مند ثابت نہیں ہوا ہے۔

وقت کا تقاضا ہے کہ وسیع پیمانے پر انتخابی اصلاحات کی جائیں ۔ اس میں سیاسی فنڈنگ کے نظام کو بہتر بنانے کو ایک اہم مقاصد میں کرنے کی ضرورت ہے۔جوابدہی اور شفافیت جمہوری نظام کی دو اہم خوبیاں ہیں ۔ اسلئے سیاسی فنڈنگ بھی ان دو خوبیوں سے مبرا نہیں ہونی چاہیے۔اس ضمن میں ایک ریگولیٹری ادارہ کا قیام ناگزیر ہے، جسے خلاف ورزی کرنے والوں کو سزا دینے کا اختیار بھی حاصل ہو۔اگر ایسا نہیں ہوا تو بھارت کے انتخابات ایک ایسا کھیل ثابت ہوتے رہیں گے جس میں پیسے والے ہی اہل قرار پائیں گے اور جن کے پاس پیسہ نہیں ہوگا سیاست میں اُن کی تعداد محض گنی چنی ہوگی۔

سنجے کمار دہلی کے سینٹر فار دی سٹیڈی آف ڈیولپنگ سوسائٹیز ( سی ایس ڈی ایس ) کے پروفیسر ہیں۔ وہ ایک سیاسی تجزیہ کار اور ایک معروف ماہر نفسیات بھی ہیں۔ ان کی جانب سے ظاہر کی گئی آرا ان کی ذاتی ہیں۔

نیل مادھو دہلی یونیورسٹی میں صحافت کے طالب علم ہیں۔ وہ سی ایس ڈی ایس کے ایک ریسرچ پروگرام لوک نیتی کے ساتھ بھی جڑے ہوئے ہیں۔

چند دن قبل امور خزانہ کے وزیر مملکت انوراگ ٹھاکُر نے پارلیمنٹ کو مطلع کیا کہ الیکشن کمیشن آف انڈیا انتخابات کے لئے حکومت کی فنڈنگ کے حق میں نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن آف انڈیا نے حکومت کوبتایا ہے کہ وہ حکومت کی جانب سے الیکشن کے لئے فنڈ مہیا کرنے کے حق میں نہیں ہے۔ کیونکہ ایسا کئے جانے کی صورت میں الیکشن کمیشن آف انڈیا اُمیدواروں کی جانب سے انتخابی مہم کے دوران خرچ کئے جانے والےاُن کے اپنے پیسے یا کسی دوسروں کی جانب سے ان پر لگائے جانے والے پیسوں پر نظر گزر نہیں رکھ پائے گا۔وزیر موصوف نے مزید کہا کہ الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ اصل مسئلے کی تدارک کے لئے قواعد و ضوبط میں سخت تبدیلیاں لانی ہونگی تاکہ سیاسی جماعتوں کی جانب سے فنڈنگ حاصل کرنے اور پھر اسے خرچ کرنے کے معاملات میں شفافیت لائی جاسکے۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ الیکشن کمیشن نے وزیر اعظم کی یہ تجاویز بھی مسترد کردی تھی جن میں انہوں نے کہا تھا کہ حکومت الیکشن لڑنے کے لئے فنڈ مہیا کرے گی اور لوک سبھا اور ریاستوں کےانتخابات بیک وقت منعقد کرائے جائیں، تاکہ حکومت اور انتخابی مشنری کا وقت بچ جائے ۔یہ تجاویز وزیر اعظم نے نوٹ بندی کے اقدام کے بعد پیش کی تھی۔

باوجود اس کے کہ الیکشن کمیشن آف انڈیا نے انتخابات کے لئے حکومت کی فنڈنگ کی تجویز مسترد کردی ہے۔وزیر موصوف نے پارلیمنٹ کو بتایا کہ سرکار نے بھارت میں انتخابی عمل کے دوران پیسے کی طاقت کا استعمال روکنے اور سیاسی فنڈنگ میں شفافیت لانے کا تہیہ کررکھا ہے۔

انہوں نے کہا کہ سیاسی فنڈنگ کے ذرائع اور نقدی کے لین دین کو روکنے کے لئے ہی حکومت نے انکم ٹیکس ایکٹ میں ترمیم کی ہے اور نامعلوم فنڈنگ کی حد محض دو ہزار کی حد مقرر کرلی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت نے سال 2018 میں الیکٹورل بانڈز بھی اسی مقصد سے متعارف کرائے ہیں۔ یہ الیکٹورل بانڈز اسٹیٹ بینک آف انڈیا کی مختلف شاخوں سے جاری کردیئے گئے ہیں۔ ان کے ذریعے ہی کوئی اپنی مرضی سے سیاسی جماعتوں کو ایک ہزار، دس ہزار، ایک لاکھ، دس لاکھ اور ایک کروڑ روپے کی رقومات عطیہ کرسکتا ہے۔

صرف اُن ہی سیاسی جماعتوں کو اس طرح کی فنڈنگ فراہم کی جاسکتی ہے، جنہوں نے حالیہ پالیمانی یا اسمبلی انتخابات میں کم از کم مجموعی ووٹ کا ایک فیصد حاصل کیا ہو۔اس طرح سے نئی نویلی سیاسی جماعتوں کے لئے فنڈنگ کا حصول ایک بڑا چیلنج ہوگا کیونکہ انتخابات میں کم از کم ایک فیصد ووٹ حاصل کرنا ایک نئی جماعت کے لئے کوئی آسان بات نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ ان ضوابط کا فائدہ صرف معروف سیاسی جماعتوں کو ہی حاصل ہوگا جن کی عوام میں مقبولیت ہو۔

لیکن اب سوال یہ کہ کیا الیکٹورل بانڈز جاری کرنے کے اس اقدام سے سیاسی فنڈنگ میں شفافیت آئی ہے ؟ قانون کی رو سے سیاسی جماعتوں کے لئے فنڈنگ کرنے والوں کی شناخت مخفی رکھنا لازمی ہے۔بجائے کالے دھن پر روک لگانے کے شناخت کو مخفی رکھے جانے کی اس قانونی مجبوری کا فائدہ بعض لوگ اور کمپنیاں اٹھا رہی ہیں۔انہیں اپنے کالے دھن کو سیاسی جماعتوں کو عطیہ کرنے کا موقع فراہم ہوتا ہے، کیونکہ ان کی شناخت صیغہ راز رکھی جاتی ہے۔

گزشتہ چند برسوں کے دوران انتخابی عمل کو درست کرنے کے نام پر مختلف سیاسی جماعتوں نے کافی زبانی جمع خرچ کیا ہے لیکن حق بات یہ ہے کہ موجودہ نظام نے اس ضمن میں صورتحال کو مزید مبہم بنا کر رکھ دیا ہے۔جبکہ حقیقی اصلاحات کے حوالے سےکوئی کام نہیں کیا گیا ہے۔

فارن کنٹری بیوشن (ریگولیشن ) ایکٹ میں ترمیم کے ذریعے سیاسی جماعتوں کو غیر ملکی فنڈنگ حاصل کرنے کی راہ ہموار ہوگئی ہے ۔ یہ ایک خطرناک بات ہے۔ بیرونی ممالک سے آنے والی فنڈنگ اور فنڈ فراہم کرنے والے کی شناخت مخفی رکھنے کا قانون خطرناک نتائج کا حامل ہوسکتا ہے۔اس کے نتیجے میں بیرونی ممالک سے آنے والی فنڈنگ سے ہمارا سیاسی نظام متاثر ہوکر رہے گا۔

الیکٹورل بانڈز کو انتخابی عمل میں اصلاحات لانے کی اُمید سے متعارف کرایا گیا تھا۔ لیکن اس عمل میں موجود نقائص نے بھارت کے انتخابی نظام میں پیسے کی طاقت کے کردار کو ختم کرنے میں درپیش مشکلات کو مزید عیاں کردیا ہے۔

الیکٹوریل بانڈز متعارف کرانے کے عمل نے سیاسی فنڈنگ اور اس سے متعلق سوالات کو پھر سے موضوع بحث بنا دیا ہے۔ہمیں اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس بحث کو انتخابی سیاسی نظام میں اصلاحات لانے کے حوالے سے بحث میں بدلنا چاہیے۔مختلف سیاسی جماعتوں نے بار بار انتخابی اصلاحات لانے کے عزم کا اظہار کیا ہے لیکن عملی طور پر اصلاحات لانے کے حوالے سے ان کی رفتار سست ہے ۔ در اصل وہ خود موجودہ نظام کی وجہ سےفائدہ حاصل کررہی ہیں۔

اس ضمن میں بہر حال اصلاحات لانی ہی ہونگی۔رائے دہندگان کو یہ جاننے کا حق حاصل ہونا چاہیے کہ سیاسی پارٹیوں کی فنڈنگ کے ذرائع کیا ہیں۔ کیوں ان ہی پارٹیوں میں سے کوئی ایک حکومت بناتی ہے اور پھر لوگوں کے لئے پالیسیاں مرتب کرتی ہے۔سیاسی فنڈنگ کے نظام میں شفافیت کے فقدان کی وجہ سے ہی اکثر حکومتوں پر الزامات عائد ہوتے رہتے ہیں کہ وہ بعض بڑی تجارتی کمپنیوں کے فوائد کے لئے کام کرتی ہیں اور لوگوں میں یہ تاثر بھی عام ہے کہ یہی تجارتی کمپنیاں سیاسی جماعتوں کی فنڈنگ کرتی ہیں۔

سابق یو پی اے سرکار پر بھی الزام عائد کیا گیا تھا کہ اس حکومت کی پشت پناہی کچھ صنعتی گھرانے کررہے ہیں۔ اب چھ سال بعد بھی اس حوالے سے صورتحال تبدیل نہیں ہوپائی ہے۔ سینٹر فار میڈیا سٹیڈیز کی ایک تحقیق کے مطابق سیاسی جماعتوں اور اُمیدواروں نے سال 2019کے لوک سبھا انتخابات کے دوران لگ بھگ 60ہزار کروڑ روپے خرچ کئے ہیں۔ماضی میں بھارت میں کسی بھی انتخابی عمل کے دوران اتنی خطیر رقم خرچ نہیں کی گئی ہے۔ اس لحاظ سے یہ اب تک کے سب سے مہنگے انتخابات ثابت ہوئے ہیں۔

بھارتی جنتا پارٹی نے اکیلے ان مجموعی اخراجات کا پینتالیس فیصد خرچ کیا ہے۔ ماضی کے مقابلے میں اب یہ بات یقینی بن گئی ہے کہ پیسہ انتخابات جیتنے کا ایک ہتھیار ثابت ہورہا ہے۔ انتخابی مہم کے دوران ایک اُمید وار کے اخراجات کی حد اسی لاکھ روپے مقرر ہے ۔لیکن تمام بااثر اُمید وار اس حد کو پار کرتے ہیں۔ یعنی وہ انتخابی مہم پر اس مقررہ حد سے زیادہ پیسہ خرچ کرتے ہیں۔اس صورتحال کے نتیجے پورا انتخابی منظر نامہ ارب پتیوں کا کھیل بن کر رہ گیا ہے جو سیاسی طاقت کے حصول کے لئے پیسہ جھونک دیتے ہیں۔ موجودہ نظام اُمیدواروں کی نگرانی کرنے اور انہیں جوابدہ بنانے میں ناکام ثابت ہورہا ہےجبکہ اس ضمن میں الیکٹورل بانڈز بھی کوئی زیادہ فائدہ مند ثابت نہیں ہوا ہے۔

وقت کا تقاضا ہے کہ وسیع پیمانے پر انتخابی اصلاحات کی جائیں ۔ اس میں سیاسی فنڈنگ کے نظام کو بہتر بنانے کو ایک اہم مقاصد میں کرنے کی ضرورت ہے۔جوابدہی اور شفافیت جمہوری نظام کی دو اہم خوبیاں ہیں ۔ اسلئے سیاسی فنڈنگ بھی ان دو خوبیوں سے مبرا نہیں ہونی چاہیے۔اس ضمن میں ایک ریگولیٹری ادارہ کا قیام ناگزیر ہے، جسے خلاف ورزی کرنے والوں کو سزا دینے کا اختیار بھی حاصل ہو۔اگر ایسا نہیں ہوا تو بھارت کے انتخابات ایک ایسا کھیل ثابت ہوتے رہیں گے جس میں پیسے والے ہی اہل قرار پائیں گے اور جن کے پاس پیسہ نہیں ہوگا سیاست میں اُن کی تعداد محض گنی چنی ہوگی۔

سنجے کمار دہلی کے سینٹر فار دی سٹیڈی آف ڈیولپنگ سوسائٹیز ( سی ایس ڈی ایس ) کے پروفیسر ہیں۔ وہ ایک سیاسی تجزیہ کار اور ایک معروف ماہر نفسیات بھی ہیں۔ ان کی جانب سے ظاہر کی گئی آرا ان کی ذاتی ہیں۔

نیل مادھو دہلی یونیورسٹی میں صحافت کے طالب علم ہیں۔ وہ سی ایس ڈی ایس کے ایک ریسرچ پروگرام لوک نیتی کے ساتھ بھی جڑے ہوئے ہیں۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.