الہ آباد میں ایک متوسط گھرانے میں 29اگست 1905کو دھیان چند کی پیدائش ہوئی۔ان کے والد فوج میں صوبیدارکے عہد ےپر فائز تھے۔
دھیان چند کو بنیادی تعلیم حاصل کرنے میں کافی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اپنے خاندان کی بار بار نقل مکانی سے ان کی تعلیم کافی متاثر ہوئی۔ اس عظیم کھلاڑی کو بچپن سے کھیلوں میں کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی لیکن اپنے ساتھیوں کے ساتھ وہ کھجور کی شاخ کی ہاکی اور پرانے کپڑوں سے بنی ہوئی گیند سے ہاکی کھیلا کرتے تھے۔
وہ محض 16برس کی عمر میں فوج میں بھرتی ہوئے ۔ اس وقت کے صوبیدار میجر توکاری نے ان کی صلاحیتوں کو بخوبی پہنچان لیا اور یہ محسوس کیا کہ وہ ہاکی کا اچھا کھلاڑی بن سکتا ہے۔
چنانچہ انہوں نے دھیان چند کو ایک بڑا کھلاڑی بنانے کا عہد کیا اور اس مقصد میں وہ کامیاب بھی رہے۔دھیان چند کو ہاکی سے دلچسپی بڑھتی گئی اور وہ چاندنی رات میں بھی ہاکی کی مشق کرنے لگے اور اسی وجہ سے انہیں ایک انگریز افسر اسے دھیان سنگھ کی بجائے دھیان 'چاند' کہہ کر پکارنے لگے۔
سنہ 1925 میں انڈین ہاکی فیڈریشن کا قیام عمل میں آیا۔ 1928کے ایمسٹرڈم اولمپکس میں انڈین ہاکی ٹیم نے فائنل میں میزبان ہالینڈ (نیدر لینڈ)کو تین صفر سے شکست دی۔ اس فائنل میچ میں دو گول دھیان چند نے بھی کیے۔
یوں پہلی بار کسی ایشیائی ملک نے جدید اولمپکس میں گولڈ میڈل حاصل کیا۔ 1932کے لاس اینجلس اولمپکس میں دھیان چند اپنی بہترین کارکردگی پیش کرکے ایک بار پھر ٹیم کو اولمپک چمپئن بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔
دھیان چند کی صلاحیتیں اور گول کرنے کی رفتار کافی حیران کن تھی ۔ انہوں نے اپنے جادوئی کھیل اور صلاحیت سے بھارتی ہاکی کے لیے کرشمہ کردکھایا۔
امریکہ کے خلاف پول میچ میں بھارتی ہاکی ٹیم نے 24 گول کیے جن میں سے دھیان چند اور ان کے بھائی روپ سنگھ نے شاندار آٹھ آٹھ گول کیے۔
سنہ 1936 کے میونخ اولمپکس میں انڈین ہاکی ٹیم نے دھیان چند کی قیادت میں مسلسل تیسری بار گولڈ میڈل حاصل کیا۔ فائنل مقابلہ میں بھارت نے 40 ہزار تماشائیوں اور ایڈولف ہٹلر کی موجودگی میں میزبان جرمنی کو 8-1 گول سے شکست دی۔
بھارت کی جانب سے چھ گول دھیان چند نے کیے۔ میچ کے بعد ہٹلر نے دھیان چند کو اپنے ہاں آنے کی دعوت دی اور ا نہیں پیشکش کی کہ اگر وہ بھات سے جرمنی آجائے تو اسے کرنل کے عہدہ پر ترقی دی جائے گی لیکن دھیان چند نے اس پیشکش کو مسترد کردیا۔
اس کے بعد دھیان چند کی ہاکی جنگ عظیم کی نذر ہوگئی۔ انہوں نے مجبوراً دو اولمپکس مقابلہ جات سے محرومی کے بعد 1948میں ہاکی سے سبکدوشی کا اعلان کردیا۔
سنہ 1956میں وہ فوج سے ریٹائرڈ ہوئے تو میجر کے عہدہ پر فائز تھے۔ اسی سال انہیں حکومت ہند نے'پدم بھوشن' ایوارڈ سے نوازا۔
سنہ 1979 میں ان کی وفات پر بھارت نے ان کی یاد میں ایک یاد گار ڈاک ٹکٹ بھی جاری کیا۔
دھیان چند نے ملک کے لیے ایک مخلص سپاہی کی حیثیت سے، ایک کھلاڑی کی حیثیت سے اور ایک چھوٹے سے انسان کی شکل میں آگے بڑھ کر ملک کے وقارکو بام عروج پر پہنچایا ہے۔
ان کی شہرت کا یہ عالم تھا کہ کہ ویانا (آسٹریاکی راجدھانی ) میں واقع ایک اسپورٹس کلب میں ان کا مجسمہ بھی نصب کیاگیا۔ اس مجسمےکے چار ہاتھ ہیں اور ہر ہاتھ میں ایک ہاکی ا سٹک ہے۔
سال 1936کے برلن اولمپکس سے قبل بھارتی ہاکی ٹیم نے آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کا دورہ کیا اس دورہ میں دھیان چند نے 200 سے زائد گول کیے جس پر سر ڈان بریڈ مین نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا'دھیان چند رنز اسکور کررہا ہے یا گول۔
ملکہ برطانیہ کا ان کے کھیل سے متاثر ہوکر یہ کہنا کہ 'دھیان چند اگر میری چھتری کو بھی ہاکی کے طور پر استعمال کرے تو وہ گول اسکور کر سکتا ہے'۔
جرمنی میں ایک نمائشی میچ میں ایک تماشائی نے اسے 'چلنے والی چھڑی' (واکنگ اسٹک) کہا ۔ اس نے دھیان چند سے کہا کہ وہ اپنی 'جادو کی ہاکی' مجھے دیدے۔
دھیان چند کی سالگرہ کے موقع پر ملک بھر میں اسپورٹس ڈے منایا جاتاہے اور اس موقع پر ملک بھر میں کھیلوں کے مختلف پروگرامز بھی منعقد کیے جاتے ہیں ۔
میجر دھیان چند ایک ایسے کھلاڑی تھے جن کے کھیل پر بھارت ہمیشہ فخرکرتا رہے گا۔ دھیان چند بھارت کے لیے ایک ایسے کھلاڑی رہے جن کا میدان پر حریف ٹیم بھی اعتراف کرتی تھی۔
تین دسمبر 1979کو اس عظیم کھلاڑی نے آخری سانس لی اور اس دنیائے فانی سے رخصت ہوگئے۔