جم کے مالکین اور ٹرینرس نے کہاکہ حکومت نے چند دن پہلے شاپنگ مالس،شراب کی دکانات،ہوٹلوں،رسٹورنٹس اور عبادت گاہوں کو کھولنے کی اجازت دی ہے۔ساتھ ہی ٹرانسپورٹیشن کی بھی اجازت دی گئی ہے تاہم جم جس سے جسم کی قوت مدافعت میں اضافہ ہوتا ہے کو ہنوز بند رکھاگیا ہے۔
ان مالکین نے گزشتہ تین ماہ سے ان جمس کو بند رکھنے پر گہری تشویش کااظہار کیا۔انہوں نے کہاکہ تقریبا ایک دہائی گھریلو فلائٹس،محدود بین ریاستی ٹرینوں اور بسوں کا احیا کیاگیا ہے۔عہدیدار اور فیکٹریز کو بھی کھولنے کی اجازت دی گئی ہے۔
وائی لکشمی نارائنا جو میٹل فٹنس سنٹر چلاتے ہیں نے کہا کہ گذشتہ کئی برسوں سے وہ سکندرآباد کے دمائی گوڑہ میں یہ فٹنس سنٹر چلاتے ہیں۔انہوں نے حکومت سے اس شعبہ کو راحت فراہم کرنے کے لئے مداخلت کی خواہش کی۔ساتھ ہی انہوں نے جی ایس ٹی کی شرحوں میں بھی کمی اور کم شرح سود پر قرض کی دستیابی،کرایہ کی معافی کی بھی خواہش ظاہر کی۔
انہوں نے کہا کہ ریاست کے فنٹس سنٹرس کو لاک ڈاون کی وجہ سے شدید مشکلات کا سامنا کرناپڑرہا ہے تاہم حکومت ان کے مسائل پر توجہ نہیں دے رہی ہے۔لکشمی نارائنا جنہوں نے تلنگانہ میں مسٹرانڈیا2012باڈی بلڈنگ چیمپین شپ میں کامیابی حاصل کی تھی،کہا کہ حکومت کو چاہئے کہ وہ کم ازکم دونوں شہروں حیدرآباد وسکندرآباد کے نان کنٹینمنٹ زونس کے علاقوں میں ان فٹنس سنٹرس کو کھولنے کی اجازت دے۔
اتھلیٹس،ٹرینرس،انتظامی اسٹاف،مرمت کے کام کرنے والا اسٹاف اور سپلمنٹس تیار کرنے والے متاثر ہوئے ہیں کیونکہ جمس بند ہوگئے ہیں۔اگر اسی طرح کی صورتحال برقرار رہی تو بے روزگاری میں اضافہ ہوگا۔32سالہ باڈی بلڈر نے یہ انتباہ دیا۔
جم کے مالکین پر بجلی کے بلز کا بھاری بوجھ ہے،ساتھ ہی ان کو عمارت کا کرایہ کا ادا کرنا پڑے گا۔لکشمی نارائنا نے کہاکہ اگر جمس کھولے جائیں تو مالکین کوویڈ19کے رہنمایانہ خطوط کے مطابق مکمل احتیاط کریں گے۔ریاست کے تین ہزار سے زائد جمس میں اس طرح کی صورتحال پائی جاتی ہے۔
طویل اور غیر متوقع کورونا وائرس کی وبا کے نتیجہ میں ان جمس کے مالکین اور ٹرینرس کو کافی مشکلا ت کا سامنا ہے۔لکشمی نارائنا نے کہا کہ تین ماہ سے ان کو نقصان اٹھانا پڑرہا ہے اور اس بات کی کوئی وضاحت سامنے نہیں آئی ہے کہ حکومت ان جمس کو کب کھولے گی۔جم کے مالکین ان کے بند ہونے کے باوجود کرایہ اور اپنے اسٹاف کی تنخواہیں ادا کررہے ہیں۔
وارثی گوڑہ کے وایوپترا جم کے ٹرینر و مالک راجندر نے کہا کہ ان کے لئے کافی مشکل صورتحال ہے۔انہوں نے کہاکہ وہ گذشتہ کئی برسوں سے یہ کاروبار سے وابستہ ہیں۔لاک ڈاون اور اس کے بعد کی صورتحال نے ان کو برباد کر دیا ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ کوئی راہ نکالے تاکہ یہ جمس جلد از جلد کھولے جاسکیں۔
ٹرینرس کو تنخواہوں کی ادائیگی کے علاوہ ان کو عمارت کے مالک کو کرایہ بھی اداکرنا پڑرہا ہے۔انہوں نے کہاکہ 60دن سے زائد عرصہ سے جم کو نہیں کھولاگیا ہے تاہم بجلی کا بل اداکرنا ان کی مجبوری ہے۔انہوں نے کہاکہ گاہکوں کو کم کرنے،جسمانی دوری اور ہر دن جم کی عمارت کو جراثیم سے پاک بنانے کا عمل اختیار کرنے کے لئے وہ تیار ہیں۔
کوویڈ19کے اصولوں کے مطابق معمر افراد ور کم عمر بچوں کو جم میں جانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ ٹرینرس سونل اور ایس کمار داس نے کہا کہ ان کا ذریعہ معاش 22مارچ سے ہوئے لاک ڈاون کی وجہ سے اچانک چھن گیا ہے۔انہوں نے کہاکہ شہر میں 40ہزار سے زائد ٹرینرس ہیں۔جم کے نہ کھلنے کی وجہ سے وہ مفلسی کے عالم میں ہیں۔
ایسٹ ماریڈ پلی سکندرآباد کی ایک جم کی مالک شانتی نے کہا کہ انہوں نے اس جم کیلئے بھاری رقم صرف کی اور یہ سونچا تھا کہ کاروبارکیلئے موسم گرما بہتر موقع ہوگا تاہم ان کو ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑا۔انہوں نے کہاکہ مکان مالکین سے درخواست کی گئی کہ وہ کرایہ کو معاف کریں کیونکہ یہ ان کی بقا کامعاملہ ہے۔اگر جم بند ہوجائیں گے تو اس بڑھتی ہوئی انڈسٹری کو دھکہ لگے گا کیونکہ فٹنس،موجودہ تناو کے ماحول میں کافی اہمیت کی حامل ہے۔