دہلی فساد کے بعد اپنوں کی تلاش میں در در بھٹکنے والوں میں ایک نام حافظ محمد ہارون کا بھی ہے، جو نریلا کے ایک مدرسے میں استاذ ہیں اور فساد متاثرہ علاقہ مصطفی آباد کے رہنے والے ہیں۔
انھوں نے اپنے اٹھارہ سالہ بیٹے حافظ محمد حذیفہ کی تلاش میں ہسپتالوں سے لے کر پولس تھانے تک ہر جگہ چکر لگائی ہے لیکن انھیں سخت مایوسی ہاتھ لگی ہے۔
مایوس والدین کو اس وقت تھوڑی تسلی ملی جب اس سے متعلق دہلی ہائی کورٹ میں ایک عرضی دائر کی ہے۔
جسٹس سدھارتھ مریڈول اور جسٹس آئی ایس مہتا کی ڈویژن بنچ نے اس معاملے پر فوری شنوائی کرتے ہوئے دیال پور تھانہ کے ایس ایچ او، تارکیشور سنگھ کو ہدایت دی ہے کہ مغموم والدین کا خیال کرتے ہوئے وہ 11 مارچ سے قبل عدالت میں اسٹیٹس رپورٹ داخل کرے۔
جمعیۃ علماء ہند کی طرف سے عدالت میں ایڈوکیٹ محمد نوراللہ اور ایڈوکیٹ حبیب الرحمن پیش ہوئے۔
واضح رہے کہ 18 سالہ حذیفہ دہلی فساد سے دو دن قبل 22 فروری سے ہی غائب ہے، وہ آخری بار ٹیوشن پڑھنے کے لیے اپنے گھر مصطفی آبا د سے نکلا تھا اور اپنی والدہ کو یہ کہہ کر گیا تھا کہ وہ ٹیوشن کے بعد جامع مسجد میں نماز ادا کرے گا لیکن اس دن سے ہی اس کا کچھ پتہ نہیں ہے۔
لیکن ادھر دو دن بعد دہلی میں فسادات رونما ہوئے اور وہاں سے تقریباً 53 کلو میٹر دور نریلا میں رہنے والے حافظ ہارون کے لیے اپنے گھر آنا مشکل ہو گیا۔
جب صورت حال تھوڑی ٹھیک ہوئی تو وہ جی ٹی بی، ایل این جے پی اور رام منور لوہیا سمیت سبھی ہسپتال گئے، ان کو مردہ خانے کی لاشیں دکھائی گئیں مگر کہیں انھیں اپنا بیٹا نظر نہیں آیا۔