لیکن دہلی انتخابات بی جے پی کے لیے کتنا سبق آموز ہے، دہلی میں بی جے پی اپنے بلند حوصلے کے ساتھ میدان میں اتری تھی، ابھی جھارکھنڈ میں ہوئی شکست اور اس سے قبل مہاراشٹر میں سب سے بڑی پارٹی ہونے کے باوجود اقتدار سے بے دخلی کا غم کم بھی نہیں ہوا تھا کہ دہلی نے دغا کر دیا۔
بی جے پی نے دہلی اسمبلی انتخابات میں جس طرح سے ہندو مسلم، دہشت گردی اور شہریت ترمیمی قانون کے خلاف چل رہے مظاہرے پر متنازع بیان اور صرف بریانی جیسے موضوع کے ارد گرد گھومتی رہی، تو کیا وہ رواں برس بہار اسمبلی انتخابات اور آئندہ برس مغربی بنگال کے انتخابات میں موجودہ پالیسی کو دہرانے کی غلطی کرے گی۔
بی جے پی کے رہنما کپل مشرا نے دہلی اسمبلی انتخابات کو تو بھارت بنام پاکستان بنا دیا، لیکن عوام نے بھارت کو جتا دیا۔ پاکستان کا کیا بنے گا پتہ نہیں۔
دہلی کی عوام نے تو بی جے پی کی مذہبی اور فرقہ پرستی والی سیاست کو خارج کر کے اروند کیجریوال کے محلہ کلینک، فری بجلی اور تعلیم کو معیار کو بہتر بنا کر اپنے مستقبل کا فیصلہ کر لیا ہے لیکن بی جے پی اپنے آنے والے مستقبل کا جائزہ اس انتخابی نتائج سے لے گی یا نہیں کہنا مشکل ہے۔
اس سے قبل ہریانہ میں بھی بی جے پی نے جموں وکشمیر سے دفعہ 370 کی منسوخی اور تین طلاق جیسے مدعوں کو اٹھایا تھا نتیجتاً بی جے پی کو مایوسی ہی ہاتھ لگی، اور اتحاد قائم کرکے اسے کسی طرح اقتدار میں آنا پڑا۔
لیکن دہلی اسمبلی انتخابات میں جس طرح سے بی جے پی نے اسے ہندو مسلم رنگ دینے کی کوشش کی اور کئی قد آور رہنماؤں کی جانب سے مسلسل متنازع بیانات دیے گئے وہ جمہوری ملک کے لیے نیک فال نہیں ہے۔
خود وزیر داخلہ نے ایک عوامی جلسے سے خطاب کے دوران شاہین باغ پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کارکنان سے اپیل کی کہ 'ای وی ایم کا بٹن اتنا زور سے دبانا کہ کرنٹ شاہین باغ میں لگے، مملکتی وزیر انوراگ ٹھاکر نے تو اسٹیج سے دیش کے غداروں کو گولی مارو۔۔۔ کو جیسے نعرے لگوائے۔
رکن اپرلیمنٹ پرویش ورما نے تو شاہین باغ میں دھرنے پر بیٹھجی خواتن کو ریپسٹ تک کہ ڈالا اور کہا کہ یہ لوگ آپ کے گھروں میں گھسیں گے اور آپ کی ماں بہنوں سے ریپ کریں گے۔
دہلی اسمبلی انتخابات کے نتائج نے بی جے پی کے خیمے میں ہلچل پیدا کر دی ہے۔ رواں برس بہار اور آئندہ برس مغربی بنگال میں بھی اسمبلی انتخابات ہونا ہے، بی جے پی کو خود احتسابی کرنا چاہیے اور اپنا جائزہ لینا چاہیے کہ وہ مرکز میں اقتدار پر قابض ہے اور ملک کی سب سے بڑی پارٹی ہو کر بھی مسلسل ہار کی طرف بڑھ رہی ہے۔ اس کے لیے کون سے عوامل کارفرما ہیں اور کمی کہاں رہ گئی ہے؟
سید دانش افروز