ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا نے دہلی فسادات پر اپنی تحقیقاتی رپورٹ پیش کی ہے جس میں ایمنسٹی نے کہا ہے کہ 'فروری 2020 میں دہلی میں ہونے والے فسادات میں دہلی پولیس کے اہلکار ملوث تھے اور انہوں نے اس تشدد میں حصہ لیا ان پر کسی طرح کی کوئی کاروائی نہیں کی۔ اس کے باوجود پولیس نے گزشتہ چھ مہینوں میں جن لوگوں نے انسانی حقوق کی پامالیاں کی تھیں، ان کے خلاف بھی کسی بھی طرح کی تحقیقات نہیں کی اور نہ ہی ان کے رول کی جانچ ہی کی گئی۔'
ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا نے دہلی فسادات کی اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں یہ باتیں کہی ہیں۔
ایمنسٹی انٹر نیشنل انڈیا کی یہ رپورٹ مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کے دہلی پولیس کے 'قابل ستائش کام' کرنے کے دعوے کے بالکل خلاف ہے، ایمنسٹی انٹرنیشنل نے جو معلومات جمع کیں، وہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور سزا سے بچنے کا ایک نمونہ ظاہر کرتی ہے۔
ایمنسٹی انٹر نیشنل انڈیا کے ایگزیکیوٹیو ڈائریکٹر اویناش کمار کہتے ہیں کہ 'یہ حیران کن ہے کہ مرکزی وزارت داخلہ نے دہلی پولیس کو ذمہ دار ٹھہرانے کی کوئی کوشش نہیں کی، حکومت کی جانب سے دہلی پولیس کو ملی اس چھوٹ سے یہ پیغام جاتا ہے کہ پولیس انسانی حقوق کی پامالی کر سکتی ہے، اور اسے ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جائے گا۔'
یہ بھی پڑھیں: دہلی فسادات: '11 اقلیتی عبادت گاہوں کو نقصان پہنچایا گیا'
اویناش کمار نے کہا کہ 'سزا سے آزادی، پولیس اور تقاریر میں تشدد کو بھڑکانے والے رہنماؤں کو یہ پیغام ہے کہ وہ مستقبل میں اگر انسانی حقوق کی پامالی کرتے ہیں تو وہ بچ جائیں گے، یہ روکا جانا چاہیے۔'
یہ رپورٹ دہلی فسادات کے متعدد متاثرین کے بیانات پر مبنی ہے، رپورٹ کے اہم نکات یہ ہیں۔
'پولیس کی ملی بھگت'
ایمنسٹی انڈیا نے ایمنسٹی انٹرنیشنل کی کرائسس ایویڈنس لیب کے اشتراک سے سوشل میڈیا پر عینی شاہدین کے ذریعہ اَپ لوڈ کردہ متعدد ویڈیوز کا اندازہ اور تصدیق کیا ہے۔ فسادات کے بعد ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا ان مقامات پر گئی جہاں ان ویڈیوز کو شوٹ کیا گیا تھا اور لوگوں کا انٹرویو لیا گیا تھا۔
انٹر ویو کیے گئے لوگوں میں سے ایک تھیں قسمتن، جن کے بیٹے فیضان کو مبینہ طور پر پولیس نے پیٹا اور قومی ترانہ گانے کے لیے مجبور کیا، فیضان بعد میں فوت ہوگیا۔ قسمتن نے کہا۔
'میں اپنے بیٹے کی تصویر لے کر تھانے گئی تھی، میں نے تصویر دکھا کر پوچھا کہ کیا وہ وہاں ہے، میں نے پوچھا کہ کیا میں اس سے مل سکتی ہوں اور کیا وہ اسے جانے دیں گے، پولیس نے منع کر دیا۔'
ایمنسٹی نے کھجوری خاص-وزیر آباد روڈ پر شوٹ کیے گئے ویڈیو کے وقت، تاریخ اور مقام کی تصدیق کی۔ اس ویڈیو میں پولیس مشتعل ہجوم کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہے اور انہیں پتھر اور آنسو گیس کے گولے چلاتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے، یہ واقعہ چاند بابا سید کی قبر کے پاس پیش آیا تھا، اس مزار پر بھی فسادیوں نے حملہ کیا تھا۔
ایمنسٹی نے قریب ہی رہنے والے ایک مقامی بھورے خان سے بھی بات کی، جس کے گھر کو آگ لگا دی گئی۔ خان نے بتایا کہ 'وہ 'جئے شری رام' کے نعرے لگارہے تھے، پہلے انہوں نے میری کار اور موٹرسائیکل کو نذر آتش کر دیا۔ میرے بھائی کو پتھر سے چوٹ لگی تھی، ہمیں معلوم تھا کہ پولیس ان کا ساتھ دے رہی ہے لہذا میں نے اپنے گھر والوں سے سب کچھ چھوڑ کر بھاگنے کو کہا۔'
زخمیوں کی ایک بڑی تعداد کو الہند اسپتال لایا گیا تھا، اسپتال کے ڈاکٹر ایم اے انور نے ایمنسٹی کو بتایا کہ 'انہوں نے پولیس سے ایمبولینس کے لیے سیکیورٹی طلب کی تھی تا کہ زخمیوں اور ہلاک شدگان کو دوسرے اسپتال لے جایا جا سکے لیکن پولیس نے کوئی مدد نہیں کی۔'
'پولیس فسادات پر قابو پانے میں نا کام رہی'
ایمنسٹی نے علاقے کے ہندو اور مسلمانوں سے بات کی جنہوں نے دعویٰ کیا کہ پولیس تشدد کو روکنے میں ناکام رہی ہے اور مدد کی درخواست پر بھی کچھ نہیں ہوا۔'
موج پور میں فسادات سے متاثرہ معین الدین کی دکان کو فسادیوں نے نذر آتش کر دیا تھا، انہوں نے ایمنسٹی کو بتایا 'میں نے کپل مشرا کو اشتعال انگیز تقریر کرتے ہوئے دیکھا۔ تقریر کے بعد ان کی باتیں سننے والے لوگوں نے لاٹھی اور دوسرے اسلحہ جمع کرنا شروع کر دیا۔ میں خوفزدہ ہوگیا اور دکان بند کر دی۔ کچھ ہی گھنٹوں میں مجھے معلوم ہوا کہ میری دکان میں آگ لگا دی گئی ہے۔ جب کپل مشرا نے تقریر کی تو پولیس بھی وہاں موجود تھی۔'
فساد کے ایک اور متاثرہ کملیش اُپل نے پولیس کو فون کرنے اور مدد نہ ملنے کی داستان سنائی۔
'ہجوم نے میرے گھر کا تالا توڑا اور اسے جلا دیا، ہم گزشتہ 22 برسوں سے وہاں مقیم تھے اور ہجوم نے وہاں کچھ نہیں چھوڑا، ہم نے پولیس کو بلانے کی کوشش کی۔ ہم نے سوچا کہ وہ آجائیں گے لیکن ہمارے علاقے تک پہنچنے میں انہیں تین دن سے زیادہ کا وقت لگا۔'
فسادات میں اپنا گھر کھو دینے والی شبنم نے کہا 'میرے شوہر نے پولیس کو کئی بار فون کیا، میرے والد نے انہیں متعدد بار بلایا، کئی مرتبہ ہم نے انہیں اپنا پتہ بتایا لیکن کوئی بھی مدد کے لیے نہیں آیا، یہاں تک کہ جب ہمارے گھر کو جلایا گیا تب بھی ہم نے پولیس کو بلایا تو پولیس نے کہا 'آپ ہمیں کتنا پریشان کریں گے؟'
دو الگ الگ واقعات میں شاہدہ اور محمد عمران نے پولیس کو متعدد بار فون کیا لیکن ایک ہی جواب ملا 'تمہیں آزادی چاہیے، یہ لو اب اپنی آزادی۔'
شیو وہار کے ڈی آر پی کنوینٹ اسکول کے نگراں روپ سنگھ نے بھی کہا کہ جب اسکول پر حملہ ہوا تو کئی بار فون کر کے بلانے کے باوجود بھی پولیس مدد کے لیے نہیں آئی۔'
ایمنسٹی کی رپورٹ میں اس دعوے پر بھی سوال اٹھایا گیا ہے کہ قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال کے 26 فروری کو فساد متاثرہ علاقوں کے دورے کے بعد تشدد ختم ہو گیا تھا۔ ڈوبھال کے دورے کے بعد بھی بابو خان کے دو بیٹے کو ہلاک کر دیا گیا تھا، خان نے بتایا 'اجیت ڈوبھال نے ہم سے کہا تھا کہ فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور سی آر پی ایف کو تعینات کردیا گیا ہے۔ مرکزی دھارے کے میڈیا نے اس کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔ میرے بیٹے اتنے بڑے نہیں تھے کہ وہ اس صورتحال کا اندازہ کر پائیں وہ جب اگلے دن گھر واپس لوٹ رہے تھے تو فسادیوں نے انہیں موٹرسائیکل پر لٹا کر سر اور چہرے پر مارا ، گہرے زخم آئے تھے، تلوار سے اس کے سر پر ان گنت حملے کیے گئے تھے، یہ کم از کم 10 سے 15 افراد کا کام تھا۔'
'حراست میں تشدد'
ایمنسٹی نے متعدد افراد سے بات کی جن کو تحویل میں رکھا گیا تھا۔ ان میں زیادہ تر مسلمان تھے۔
ایک فساد متاثرہ شخص نے کہا 'جب میں گھر واپس آرہا تھا تو پولیس نے مجھے روکا اور پوچھا کہ میں ہندو ہوں یا مسلمان؟ جب میں نے مسلمان بتایا تو وہ مجھے ایک وین میں بٹھا کر دیال پور پولیس اسٹیشن لے گئے، اس کار میں قریب 25 مزید افراد تھے، وہ (پولیس اہلکار) کہتے تھے کہ 'تمہیں آزادی چاہیے' اور ہمیں مارتے تھے، ہم پر اگلے چار دنوں تک تشدد کیا گیا، انہوں نے مجھے اور دیگر کو لاٹھیوں اور بیلٹوں سے پیٹا۔'
ایمنسٹی نے ایک فساد متاثرہ شخص جس نے پولیس کی مبینہ گولی سے اپنی دونوں آنکھیں کھو دی ہیں کے بھائی سے بات کی، جنہوں نے بتایا کہ پولیس نے حراست میں اس پر تشدد کیا، ہم پولیس کے خلاف تحقیقات نہیں چاہتے، اس سے ہوگا بھی کیا۔'
ایمنسٹی نے خالد سیفی کی اہلیہ نرگس سے بات کی، خالد سیفی فی الحال فسادات کے الزام میں جیل میں بند ہیں اور یو اے پی اے کے الزامات کا سامنا کررہے ہیں۔ نرگس نے الزام لگایا کہ خالد پر پولیس تحویل میں تشدد کیا جارہا ہے۔ نرگس نے کہا 'جب میں اپنے شوہر سے ملنے گئی تو میں نے اسے ایک وہیل چیئر پر بیٹھا ہوا پایا، انہوں نے (خالد) مجھے بتایا کہ دہلی پولیس نے ان پر بری طرح سے تشدد کیا۔'
فسادات کے بعد مظالم
فساد کی شکار شبنم نے ایمنسٹی کو بتایا 'میرے والد کو 9 مارچ کی شام 4-5 بجے کے قریب کرائم برانچ نے اٹھایا تھا، انہیں کھریجی خاص پولیس اسٹیشن لے جایا گیا۔ انہوں (کرائم برانچ) نے میرے والد کو خالی کاغذ پر دستخط کرنے کو کہا۔ میرے والد نے کہا کہ پہلے کاغذ پر کچھ لکھیں، لیکن وہ وہی بات دہراتے رہے، انہوں نے دستخط نہیں کیے۔ پولیس نے میرے والد کا فون ضبط کر لیا تھا لہذا ہم ان سے رابطہ نہیں کر سکے۔ ہم ان کی زندگی سے ڈر گئے تھے اور رونے کے سوا کچھ نہیں کرپائے۔'
چمن پارک کے رہائشی نظام الدین نے بتایا 'جب میں گھر میں نہیں تھا تو پولیس داخل ہوگئی، میری اہلیہ اور دو بچے گھر پر تھے اور پولیس نے ہمارا سامان چیک کیا۔ بعد میں انہوں نے مجھے اٹھایا اور پولیس اسٹیشن لے گئے۔ انہوں نے مجھے ایک کورے کاغذ پر دستخط کرنے کو کہا اور کہا کہ جب بھی وہ فون کریں میں تھانے آؤں گا۔'
اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک وکیل نے ایمنسٹی کو بتایا 'ہم نے پولیس کو ایسی ویڈیوز دی ہیں جس میں فساد کرنے والوں کی واضح شناخت ہوچکی ہے لیکن پولیس کچھ نہیں کر رہی ہے۔ یہ واضح ہے کہ جو لوگ گرفتار ہو رہے ہیں وہ بڑی تعداد میں مسلمان ہیں۔ جب پولیس اس طرح کسی کمیونٹی کو نشانہ بناتی ہے تو برادریوں کے مابین باہمی اعتماد ٹوٹ جاتا ہے۔'