ریاست اترپردیش کے صنعتی شہر نوئیڈا کے ایکسپریس وےپر تھانہ علاقہ کے سیکٹر 127 بختاورپور گاؤں میں شری رام کے گھر ایک گائےمردہ حالت میں پڑی ملی جسے کوئی ہٹانے والانہیں تھا۔
واضح رہے کہ جس علاقے میں یہ مردہ گائے ملی اتفاق سے وہاں کوئی مسلم آبادی نہیں تھی اور نہ ہی وہ کسی کی ذاتی گائے تھی۔
بتا یا جا رہا ہے کہ ان سارے وجوہات کے بنا پر شاید دھرم کے ٹھیکداروں نے ادھر نظر نہ کی ورنہ تو گذرے واقعات کے مد نظر یہی بات کہی جا سکتی ہے کہ کتنے معصوموں کو اب تک گائے کو قتل کئے جانے کے سبب سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا جاتا۔
ایک اطلا ع کے مطابق ہیومن رائٹس واچ نے رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہندوستان میں گائے کی حفاظت کی آڑ میں اقلیتوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔
ہیومن رائٹس واچ نے 104 صفحات پر مبنی نئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان میں جنونی گروہ گائے کی حفاطت کے نام پراقلیتوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے کارکنان اور رہنما بلوائیوں کو بیف کھانے اور مویشی کی تجارت کرنے والے افراد کے خلاف تشدد پر ابھارتے ہیں۔
دوسری جانب پولیس ان جنونی حملہ آوروں کے خلاف قانونی کارروائی نہیں کرتی جبکہ بی جے پی کے رہنما عوامی تقریروں میں ان حملوں کو جسٹیفائی کر رہے ہیں۔
اس جائزے کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ گاؤ رکھشک اور ہندو قوم پرست سیاسی جماعتوں کا آپس میں گٹھ جوڑ ہے۔
جبکہ مقامی انتظامیہ اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کرنے میں مکمل ناکام رہی ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اکثر حملہ آور خود کو ایسی عسکریت پسند تنظیموں سے جوڑتے ہیں جو بی جے پی سے منسلک ہیں اور زیادہ تر حملے مسلمانوں اور دلت پر کرتے ہیں۔
آپ کو بتا دیں کہ 1420 میں بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے ساتھ مختلف ریاستوں میں ’گئو رکشک‘ یعنی گائے کے محافظ اور دوسری ہندو تنظیموں کے کارکن جگہ جگہ گروپوں میں نظر آنے لگے ہیں۔
جن میں اکثر کا تعلق حکمراں جماعت بی جے پی سے ہے اور بیشتر ان میں بے روزگار ہیں۔