ETV Bharat / bharat

کوئلہ : ملک کی معیشت کا ایندھن

مرکزی سرکار نے حال ہی میں ترقیاتی اصلاحات کرتے ہوئے کوئلہ سیکٹر میں خانگی کمپنیوں کو تجارتی مقاصد کیلئے کان کنی کی اجازت دے دی۔ اس کے نتیجے میں اس شعبے میں کول انڈیا لمیٹڈکی اجارہ داری کو ختم ہوگئی۔

author img

By

Published : Jan 15, 2020, 2:05 AM IST

کوئلہ : ملک کی معیشت کا ایندھن
کوئلہ : ملک کی معیشت کا ایندھن

مرکزی کابینہ نے اس ضمن میں1957ء کے مائنز اینڈ مینرلز (ڈیولپمنٹ اینڈ ریگولیشن) ایکٹ اور 2015ء کے کول مائنز ایکٹ کی ترمیم کی منظوری دیتے ہوئے ایک فوری آرڈی نینس جاری کردیا۔

حکومت کو یہ اُمید تھی کہ فروری 2018ء کے اس اقدام کے نتیجے میں کوئلہ شعبے میں کمپنیوں کی مثبت مقابلہ آرائی برقرار رہے گی اور اسکے نتیجے میں قیمتیں بھی اعتدال پر رہیں گی ۔ لیکن قواعد و ضوبط کی الجھنیں ابھی تک حل نہیں کی جاسکی ہیں۔

اگر حکومت بولی لگانے والی کمپنیوں کی زیادہ سے زیادہ شرکت یقینی بنانے اور سو فیصد براہ راست سرمایہ کاری کے اہداف پورا کرنا چاہتی ہے تو اسے قانونی پیچیدگیاں دور کرنی ہی ہونگی۔ ابھی تک بھارت میں کوئلہ کان کنی میں تجربہ ہونے کی شرط پر صرف پاور اور سٹیل سیکٹر کو نیلامی کے عمل میں شامل ہوجانے یعنی بولی لگانے کاحق تھا۔ لیکن مذکورہ آرڈیننس کی رو سے یہ شرط ختم ہوگئی ہے اور اب پائیڈ باڈی ، گلین کور اور ریو ٹنٹو جیسی بڑی اوربین الاقوامی کمپنیوں کے لئے یہاں کوئلہ کی کان کنی کی راہ ہموار ہوگئی ہے۔

کوئلہ : ملک کی معیشت کا ایندھن
کوئلہ : ملک کی معیشت کا ایندھن

سیمنٹ ، سٹیل اور بجلی پیدا کرنے والی صنعتوں کی ضرورت پوری کرنے کے لئے یہ بات لازمی ہے کہ کوئلہ سپلائی مسلسل جاری رہے۔ بھارت کو گزشتہ سال ضرورت اور پیدوار کی خلیج کو پاٹنے کے لئے باہر سے 23بلین ٹن کوئلہ در آمد کرنا پڑا تھا۔لیکن اگر ہم نے گھریلو کان کنی سے کوئلہ حاصل کیا ہوتا تو ہم باہر سے منگائے گئے مال میں سے کم از کم 13کروڑ ٹن کی کمی کرسکتے تھے اور اس طرح سے خزانہ عامرہ کی بھاری بچت ہوجاتی۔

حکومت کو اُمید ہے کہ نئی اصلاحات کے نتیجے میں نہ صرف کمپنیوں کی مثبت مقابلہ آرائی بڑھے گی بلکہ اس کے نتیجے میں کوئلہ کی پیداوار میں بھی اضافہ ہوگا۔خیال کیا جاتا ہے کہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کی شرکت کی وجہ سے کوئلہ کے زیر زمین خزانے کھنگالنے کے لئے اعلیٰ سطحی ٹیکنالوجی متعارف ہوگی اور اسکی وجہ سے اس شعبے میں ترقی کی مزید اُمیدیں پیدا ہوگئی ہیں۔

ہر گزرنے والے سال کے ساتھ ساتھ ملک میں کوئلہ سپلائی میں کمی رونما ہوجانے سے صنعت کاری کے شعبے کو کافی نقصان برداشت کرنا پڑرہا ہے۔ کول انڈیا لمیٹڈ ، جو ملک میں کوئلہ کی مجموعی پیداوار کا تیسرا حصہ فراہم کرتا ہے ، اہداف پورے کرنے میں ناکام ثابت ہوا ہے۔ کول انڈیا لمیٹڈ،1973میں کوئلہ کی کان کنی کی نیشنل لائزیشن ہوجانے کے دو سال بعد معرض وجود آگئی تھی۔

تب سے یہ بڑی صنعتوں کو مطلوبہ مقدار میں کوئلہ فراہم کرنے میں مسلسل ناکام ہورہی ہے اور اس کے نتیجے میں ضرورت پوری کرنے کے لئے بیرونی دنیا پر انحصار بڑھ گیا ہے۔مودی سرکار نے جدید ٹیکنالوجی کے حصول کے لئے بھی صیح اقدامات کئے ہیں۔

کول انڈیا لمیٹڈ جسے مہا رتنا پبلک سیکٹر انڈر ٹیکنگ کا درجہ دیا گیا ہے۔ مجموعی طور پر 60کروڑ ٹن کوئلہ پیداکرتا ہے لیکن اگر 24-2023ء تک یہ مطلوبہ مقدار یعنی ایک سو ملین ٹن کی پیداوار کا ہدف پورا نہیں کرپائی تو اس کی حالت بھی بی ایس این ایل جیسی ہوگی ،جس کا اب پرائیویٹ مواصلاتی کمپنیوں کے ساتھ مقابلہ آرائی میں پورا نہ اترنے کی وجہ سے دم گھٹ رہا ہے۔

حکومت ، جو غیر ملکی سرمایہ کاری کو فرو غ دے رہی ہے اور براہ راست یا بالواسطہ روزگار کے مواقعہ پیدا کررہی ہے،کو کول انڈیا لمیٹڈکے تیس لاکھ ملازمین کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔اب یہ کول انڈیا لمیٹیڈ کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایک نئے جوش کے ساتھ کام کرئے ، جیسا کہ کول اینڈ مائنز کے وزیر پرہالڈ جوشی نے یقین دہانی کرائی ہے۔

جب تک براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاریہاں پیر جماتے ہیں ، اگر تب تک کو ل انڈیا لمیٹڈ نے اپنی کارکردگی بہتر بنائی تو یہ قوم کی ترقی کے لئے زیادہ بہتر ہے۔کوئلہ ، جسے کالا سونابھی پکارا جاتا ہے ، کے حوالے سے بھارت کی صورتحال حیران کن ہے۔

بھارت کوئلہ کے خزانوں کی ملکیت رکھنے والے ممالک میں امریکا ، روس ، آسٹریلیا اور چین کے بعد پانچویں نمبر پرہے۔بھارت زیادہ سے زیادہ کوئلہ در آمد کرنے کے حوالے جاپان کے بعد دوسرا بڑا ملک ہے۔ بھارت 16.2اور جاپان 16.7فی صدکوئلہ در آمد کرتا ہے۔یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ سابق یو پی اے سرکار کوئلہ سکینڈل میں پوری طرح ملوث تھی۔

یہ سکینڈل نیشنلائزیشن ایکٹ کی صریحاً خلاف ورزی کرتے ہوئے منظور نظر لوگوں کو ٹھیکے دیئے جانے سے متعلق تھا۔1993ء سے جاری اس عمل پر اُس وقت روک لگ گئی ، جب سپریم کورٹ نے 6سال قبل214کوئلہ کانوں کی الاٹمنٹ منسوخ کردی ۔

مودی سرکار کی جانب سے جاری کردہ دس رکنی ایجنڈے میں کہا گیا ہے کہ حکومت ای بڈنگ یعنی انٹر نیٹ کے ذریعے بولی لگانے کے عمل کے ذریعے شفافیت لائے گی ۔یہ بہتر نتائج کا حامل طریقہ کار ثابت ہوگا۔کول انڈیا لمیٹڈ اور باقی ملٹی نیشنل کمپنیوں کو چاہیے کہ وہ کوئلہ درآمد کرنے کے عمل کو زیادہ سے زیادہ کم کرنے کی کوشش کریں۔

منسوخ شدہ کوئلہ کانوں میں سے صرف29کی از سر نو بولی لگائی گئی ہے۔اب وقت آگیا ہے کہ حکومتی مشینری متحرک ہوجائے اور کوئلہ کانوں کو پٹے پر دینے اور اصلاحات لاگو کرنے میںعمل میں تیزی لائے ۔ کوئلہ سیکٹر میںغیر ملکی سرمایہ کاری اسی صورت میں پھل پھول سکتی ہے جب اس کے لئے ایک تجارت دوست ماحول پیدا کیا جائے گا۔

سپریم کورٹ نے مرکز کو ہدایات دی ہیں کہ وہ قواعد و ضوابط مرتب کرکے متعلقین کو اس بات کا پابند بنائیں کہ جہاں کہیں بھی کان کنی کا عمل مکمل ہوجاتا ہے ، اس جگہ کو سر سبز و شاداب بنانے کے لئے بھی اقدات کریں۔مرکز کی جانب سے شروع کئے گئے اصلاحات کے عمل میں سپریم کورٹ کے ہدایات کو پورا کیا جانا چاہیے ۔

مرکزی کابینہ نے اس ضمن میں1957ء کے مائنز اینڈ مینرلز (ڈیولپمنٹ اینڈ ریگولیشن) ایکٹ اور 2015ء کے کول مائنز ایکٹ کی ترمیم کی منظوری دیتے ہوئے ایک فوری آرڈی نینس جاری کردیا۔

حکومت کو یہ اُمید تھی کہ فروری 2018ء کے اس اقدام کے نتیجے میں کوئلہ شعبے میں کمپنیوں کی مثبت مقابلہ آرائی برقرار رہے گی اور اسکے نتیجے میں قیمتیں بھی اعتدال پر رہیں گی ۔ لیکن قواعد و ضوبط کی الجھنیں ابھی تک حل نہیں کی جاسکی ہیں۔

اگر حکومت بولی لگانے والی کمپنیوں کی زیادہ سے زیادہ شرکت یقینی بنانے اور سو فیصد براہ راست سرمایہ کاری کے اہداف پورا کرنا چاہتی ہے تو اسے قانونی پیچیدگیاں دور کرنی ہی ہونگی۔ ابھی تک بھارت میں کوئلہ کان کنی میں تجربہ ہونے کی شرط پر صرف پاور اور سٹیل سیکٹر کو نیلامی کے عمل میں شامل ہوجانے یعنی بولی لگانے کاحق تھا۔ لیکن مذکورہ آرڈیننس کی رو سے یہ شرط ختم ہوگئی ہے اور اب پائیڈ باڈی ، گلین کور اور ریو ٹنٹو جیسی بڑی اوربین الاقوامی کمپنیوں کے لئے یہاں کوئلہ کی کان کنی کی راہ ہموار ہوگئی ہے۔

کوئلہ : ملک کی معیشت کا ایندھن
کوئلہ : ملک کی معیشت کا ایندھن

سیمنٹ ، سٹیل اور بجلی پیدا کرنے والی صنعتوں کی ضرورت پوری کرنے کے لئے یہ بات لازمی ہے کہ کوئلہ سپلائی مسلسل جاری رہے۔ بھارت کو گزشتہ سال ضرورت اور پیدوار کی خلیج کو پاٹنے کے لئے باہر سے 23بلین ٹن کوئلہ در آمد کرنا پڑا تھا۔لیکن اگر ہم نے گھریلو کان کنی سے کوئلہ حاصل کیا ہوتا تو ہم باہر سے منگائے گئے مال میں سے کم از کم 13کروڑ ٹن کی کمی کرسکتے تھے اور اس طرح سے خزانہ عامرہ کی بھاری بچت ہوجاتی۔

حکومت کو اُمید ہے کہ نئی اصلاحات کے نتیجے میں نہ صرف کمپنیوں کی مثبت مقابلہ آرائی بڑھے گی بلکہ اس کے نتیجے میں کوئلہ کی پیداوار میں بھی اضافہ ہوگا۔خیال کیا جاتا ہے کہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کی شرکت کی وجہ سے کوئلہ کے زیر زمین خزانے کھنگالنے کے لئے اعلیٰ سطحی ٹیکنالوجی متعارف ہوگی اور اسکی وجہ سے اس شعبے میں ترقی کی مزید اُمیدیں پیدا ہوگئی ہیں۔

ہر گزرنے والے سال کے ساتھ ساتھ ملک میں کوئلہ سپلائی میں کمی رونما ہوجانے سے صنعت کاری کے شعبے کو کافی نقصان برداشت کرنا پڑرہا ہے۔ کول انڈیا لمیٹڈ ، جو ملک میں کوئلہ کی مجموعی پیداوار کا تیسرا حصہ فراہم کرتا ہے ، اہداف پورے کرنے میں ناکام ثابت ہوا ہے۔ کول انڈیا لمیٹڈ،1973میں کوئلہ کی کان کنی کی نیشنل لائزیشن ہوجانے کے دو سال بعد معرض وجود آگئی تھی۔

تب سے یہ بڑی صنعتوں کو مطلوبہ مقدار میں کوئلہ فراہم کرنے میں مسلسل ناکام ہورہی ہے اور اس کے نتیجے میں ضرورت پوری کرنے کے لئے بیرونی دنیا پر انحصار بڑھ گیا ہے۔مودی سرکار نے جدید ٹیکنالوجی کے حصول کے لئے بھی صیح اقدامات کئے ہیں۔

کول انڈیا لمیٹڈ جسے مہا رتنا پبلک سیکٹر انڈر ٹیکنگ کا درجہ دیا گیا ہے۔ مجموعی طور پر 60کروڑ ٹن کوئلہ پیداکرتا ہے لیکن اگر 24-2023ء تک یہ مطلوبہ مقدار یعنی ایک سو ملین ٹن کی پیداوار کا ہدف پورا نہیں کرپائی تو اس کی حالت بھی بی ایس این ایل جیسی ہوگی ،جس کا اب پرائیویٹ مواصلاتی کمپنیوں کے ساتھ مقابلہ آرائی میں پورا نہ اترنے کی وجہ سے دم گھٹ رہا ہے۔

حکومت ، جو غیر ملکی سرمایہ کاری کو فرو غ دے رہی ہے اور براہ راست یا بالواسطہ روزگار کے مواقعہ پیدا کررہی ہے،کو کول انڈیا لمیٹڈکے تیس لاکھ ملازمین کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔اب یہ کول انڈیا لمیٹیڈ کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایک نئے جوش کے ساتھ کام کرئے ، جیسا کہ کول اینڈ مائنز کے وزیر پرہالڈ جوشی نے یقین دہانی کرائی ہے۔

جب تک براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاریہاں پیر جماتے ہیں ، اگر تب تک کو ل انڈیا لمیٹڈ نے اپنی کارکردگی بہتر بنائی تو یہ قوم کی ترقی کے لئے زیادہ بہتر ہے۔کوئلہ ، جسے کالا سونابھی پکارا جاتا ہے ، کے حوالے سے بھارت کی صورتحال حیران کن ہے۔

بھارت کوئلہ کے خزانوں کی ملکیت رکھنے والے ممالک میں امریکا ، روس ، آسٹریلیا اور چین کے بعد پانچویں نمبر پرہے۔بھارت زیادہ سے زیادہ کوئلہ در آمد کرنے کے حوالے جاپان کے بعد دوسرا بڑا ملک ہے۔ بھارت 16.2اور جاپان 16.7فی صدکوئلہ در آمد کرتا ہے۔یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ سابق یو پی اے سرکار کوئلہ سکینڈل میں پوری طرح ملوث تھی۔

یہ سکینڈل نیشنلائزیشن ایکٹ کی صریحاً خلاف ورزی کرتے ہوئے منظور نظر لوگوں کو ٹھیکے دیئے جانے سے متعلق تھا۔1993ء سے جاری اس عمل پر اُس وقت روک لگ گئی ، جب سپریم کورٹ نے 6سال قبل214کوئلہ کانوں کی الاٹمنٹ منسوخ کردی ۔

مودی سرکار کی جانب سے جاری کردہ دس رکنی ایجنڈے میں کہا گیا ہے کہ حکومت ای بڈنگ یعنی انٹر نیٹ کے ذریعے بولی لگانے کے عمل کے ذریعے شفافیت لائے گی ۔یہ بہتر نتائج کا حامل طریقہ کار ثابت ہوگا۔کول انڈیا لمیٹڈ اور باقی ملٹی نیشنل کمپنیوں کو چاہیے کہ وہ کوئلہ درآمد کرنے کے عمل کو زیادہ سے زیادہ کم کرنے کی کوشش کریں۔

منسوخ شدہ کوئلہ کانوں میں سے صرف29کی از سر نو بولی لگائی گئی ہے۔اب وقت آگیا ہے کہ حکومتی مشینری متحرک ہوجائے اور کوئلہ کانوں کو پٹے پر دینے اور اصلاحات لاگو کرنے میںعمل میں تیزی لائے ۔ کوئلہ سیکٹر میںغیر ملکی سرمایہ کاری اسی صورت میں پھل پھول سکتی ہے جب اس کے لئے ایک تجارت دوست ماحول پیدا کیا جائے گا۔

سپریم کورٹ نے مرکز کو ہدایات دی ہیں کہ وہ قواعد و ضوابط مرتب کرکے متعلقین کو اس بات کا پابند بنائیں کہ جہاں کہیں بھی کان کنی کا عمل مکمل ہوجاتا ہے ، اس جگہ کو سر سبز و شاداب بنانے کے لئے بھی اقدات کریں۔مرکز کی جانب سے شروع کئے گئے اصلاحات کے عمل میں سپریم کورٹ کے ہدایات کو پورا کیا جانا چاہیے ۔

Intro:Body:

news


Conclusion:
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.