چین نے جمعہ کے روز امریکا کے ساتھ جوہری ہتھیاروں کی محدودیت کے مذاکرات میں شمولیت کے کسی امکان کو مسترد کرتے ہوئے واشنگٹن سے آنے والی اطلاعات کو طلب کیا ہے کہ وہ اس کے بیان کردہ مقام کی تحریف کا باعث بنے گا۔
وزارت خارجہ کے ترجمان ژاؤ لیجیان نے صحافیوں کو بتایا کہ امریکہ مجوزہ مذاکرات میں نہ سنجیدہ ہے اور نہ ہی مخلص ہے اور بجائے اس کے کہ وہ نیوکلیئر وار ہیڈز کی تعداد کو محدود کرتے ہوئے موجودہ نیو اسٹارٹ معاہدے میں توسیع کے لئے روس کے مطالبے کا جواب دے۔
ژاؤ نے روزانہ کی ایک بریفنگ میں کہا کہ نام نہاد سہ فریقی ہتھیاروں پر قابو پانے کے مذاکرات پر چین کا اعتراض بالکل واضح ہے اور امریکہ اسے بخوبی جانتا ہے۔ تاہم امریکہ اس مسئلے پر مستقل طور پر قائم ہے اور چین کی حیثیت کو بھی مسخ کر رہا ہے۔
چین جس کے پاس امریکہ اور روس کے بعد دنیا کے سب سے بڑا جوہری ہتھیاروں کا ذخیرہ ہے نے برقرار رکھا کہ وہ واشنگٹن اور ماسکو کے ساتھ اپنے ہتھیاروں کی تعداد کم کرنے پر بات چیت میں شریک نہیں ہوگا۔ تاہم ژاؤ نے بات چیت کا دروازہ کھلا رکھتے ہوئے یہ کہا کہ واشنگٹن کو جوہری ہتھیاروں کی دیگر ریاستوں کے لئے جوہری تخفیف اسلحہ سے متعلق مذاکرات میں حصہ لینے کے لئے حالات پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔
امریکہ نے دو ہفتے قبل ویانا میں روس کے ساتھ معاہدہ کی بات چیت میں چینی غیر موجودگی کی نشاندہی کی تھی جو فروری میں ختم ہونے والا ہے۔ یہ معاہدہ 2010 میں اسلحہ میں کمی سے متعلق ہے جو اگلے فروری تک ختم ہوجائے گے۔ اسے نئے معاہدہ نیو اسٹارٹ سے بدلا جائے گا یا اس میں توسیع کی جائے گی۔
یہ معاہدہ امریکہ اور روس کے مابین ہے جو طویل عرصے سے دنیا کی بڑی جوہری طاقتیں ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ چاہتا ہے کہ چین ایک ابھرتی ہوئی فوجی طاقت کی حیثیت سے اس میں شامل ہو۔
وزارت خارجہ کے اسلحہ کنٹرول محکمہ کے ڈائریکٹر جنرل فو کانگ نے بدھ کے روز اس مطالبہ کو غیر حقیقت پسندانہ قرار دیا ہے کیونکہ چین کے پاس دونوں قوتوں سے بہت ہی کم تعداد میں جوہری ہتھیار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ چین کو شمولیت کی دعوت دے کر امریکہ معاہدے میں آئے بغیر مذاکرات سے دور رہنے کا بہانہ بنا رہا ہے۔