چدمبرم نے وزیر داخلہ امت شاہ کے ذریعہ آج ایوان میں پیش اس بل پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ ہندوستان میں شہریت کے سلسلے میں قانون ہے۔ اس ملک میں کس طرح سے شہریت دی جائےگی اس کا پورا التزام ہے لیکن یہ حکومت صرف تین ملکوں کا ایک گروپ بنا کر وہاں کی اقلیتوں خصوصاً ہندو، سکھ، عیسائی، بودھ اور احمدیہ مذہب کو ماننے والے لوگوں کو شہریت دیے جانے کا التزام تجویز کر رہی ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ سری لنکا کے ہندوؤں اور بھوٹان کے عیسائیوں کو اس میں شامل نہیں کیا گیا ہے۔
انہوں نے اس بل کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ یہ بل عدالت میں ٹک نہیں پائے گا۔ انہوں نے کہاکہ جو کام مقنہ کو کرنا چاہئے اب وہ عدلیہ کو کرنا ہوگا۔ جن کو قانون بنانے کے لئے چن کر بھیجا گیا ہے وہ اپنے فرائض سے آزاد ہو گئے ہیں۔ اس بل کو عدالت میں چیلنج کیا جائےگا اور اس پر جج اور وکیل بحث کی بنیاد پر فیصلہ کریں گے جو پارلیمنٹ کے منہ پر تمانچہ ہوگا۔
سابق وزیر داخلہ نے کہا کہ اس بل کو لےکر وہ حکومت سے کچھ سوال پوچھنا چاہتے ہیں، جن کا جواب کون دے گا؟ اٹارنی جنرل کو ایوان میں بلا کر اس کا جواب دینا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ صرف تین ملکوں پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش کے اقلیتوں کو ہی کیوں اس کے لئے منتخب کیا گیا ہے۔ ان تینوں ملکون کے صرف ہندو، عیسائی، سکھ، بودھ، پارسی اور احمدیہ کو ہی اس کے لئے منتخب کیا گیا ہے۔ اسلام اور دیگر مذاہب کے ماننے والوں کا انتخاب کیوں نہیں کیا گیا۔ بھوٹان کے عیسائی اور سری لنکا کے ہندوؤں کو اس میں شامل کیوں نہیں کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ اس کے لئے مذہب کی بنیاد پر استحصال کرنے کو بنیاد بنایا گیا ہے جبکہ زبان، سیاست اور کئی دیگر وجوہات سے بھی استحصال ہوتا ہے۔ چدمبرم نے کہا کہ یہ آئین کے تین آرٹیکلس کے خلاف ہے۔ آئین میں برابری کا حق دیا گیا ہے جبکہ یہ بل پوری طرح سے اس کے خلاف ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس بل پر ایگزیکٹو خاموش ہے۔ مقنہ تعاون کر رہی ہے جبکہ عدلیہ اسے خارج کرے گی۔