قبل ازیں جموں میں واقع ٹریرزم اینڈ ڈسرپٹیو ایکٹیوٹیز ایکٹ (ٹاڈا) کی خصوصی عدالت نے یاسین ملک کے خلاف ناقابل ضمانت وارنٹ جاری کیا تھا اور پولیس کو انہیں 11 ستمبر سے قبل عدالت کے روبرو کرانے کی ہدایت دی تھی۔
یاسین ملک پر الزام ہے کہ انہوں نے 25 جنوری 1990 کو اسکواڈرن لیڈر روی کھنہ اور ان کے تین ساتھیوں کو سرینگر کی مضافات میں واقع راولپور ہ علاقے میں گولی مار کر ہلاک کردیا تھا۔
یاسین ملک، ان نوجوانوں میں شامل تھے جنہوں نے 1989 میں پہلی بار حکومت کے خلاف بندوق اٹھائی۔ عبدالحمید شیخ، اشفاق مجید وانی، جاوید میر اور یاسین ملک پر مشتمل پہلے چار بندوق برداروں کو حاجی گروپ کہا جاتا تھا۔ حکام کہتے ہیں کہ جموں و کشمیر میں بھارت مخالف عسکریت شروع ہونے کے وقت، کشمیر میں ہونیوالے اکثر پرتشدد واقعات میں اسی گروپ کا ہاتھ رہا ہے۔ حمید شیخ اور اشفاق مجید پہلے ہی مارے جاچکے ہیں جبکہ ملک اور جاوید میر اسوقت زیر حراست ہیں۔
یاسین ملک پر سابق وزیر اعلیٰ مفتی محمد سعید کی دختر روبیہ سعید کے اغوا کا بھی الزام ہے۔ یاسین ملک کو مارچ میں حراست میں لیا گیا تھا لیکن انہیں گذشتہ مہینے شدت پسندوں کی مالی معاونت کے الزام میں نیشنل انوسٹگیشن ایجینسی (این آئی اے) کی تحویل میں دیا گیا جس کے بعد انہیں تہاڑ جیل میں رکھا گیا ہے۔
یاسین ملک نے 1994 میں عسکریت پسندی کو خیر باد کہا تھا جس کے بعد وہ سیاسی سطح پر سرگرم ہوگئے تھے۔ انہوں نے سابق وزرائے اعظم اٹل بہاری واجپئی اور منموہن سنگھ کے ساتھ مذاکرات بھی کئے۔ اس دوران انہیں امریکہ اور پاکستان جانے کی بھی اجازت دی گئی تھی جہاں وہ کئی ماہ تک مقیم رہے تھے۔
یاسین ملک کی شادی پاکستان کے ایک سابق سیاسی لیڈر کی دختر مشال ملک کے ساتھ ہوئی ہے اور ان کی ایک بیٹی بھی ہے۔ مشال اور انکی بیٹی کو گزشتہ کئی سال سے حکومت ہند نے ویزا فراہم نہیں کیا ہے۔