ETV Bharat / bharat

کووِڈ-19 کے دوران بزرگوں کی دیکھ بال، طریقہ اور احتیاط - کورونا وائرس میں بزرگوں کی صحت

حیدرآباد میں انڈین انسٹی ٹیوٹ آف پبلک ہیلتھ کے پروفیسر وی رامن دھار نے کووڈ 19 کے بحران کے دوران بزرگوں کی دیکھ بھال کے تعلق سے کہا ہے کہ اس لاک ڈاؤن کے دوران ہم کیسے اپنے گھر کے بزرگوں کے ساتھ وقت گزار سکتے ہیں اور ان کی دیکھ بھال کے لیے کون کون سے احتیاطی اقدام لازمی ہیں۔

کووِڈ-19 کے دوران بزرگوں کی دیکھ بال،طریقہ اور احتیاط !
کووِڈ-19 کے دوران بزرگوں کی دیکھ بال،طریقہ اور احتیاط !
author img

By

Published : Apr 3, 2020, 9:09 PM IST

ساٹھ سال سے زیادہ کی عمر کے لوگوں کو کووِڈ-19 کا سب سے زیادہ خطرہ ہے کیونکہ اُن کی قوتِ مدافعت ایسی نہیں ہوتی جیسی جوانی کے دنوں میں ہوتی تھی۔ پھر بڑی عمر کے لوگوں میں ذیابطیس، بُلڈ پریشر، امراضِ قلب اور سانس لینے وغیرہ کے مسائل عام ہوتے ہیں جن کی وجہ سے یہ لوگ صحت کے حوالے سے پہلے ہی خطرات سے دوچار رہتے ہیں۔ مختلف ممالک میں ہوئی تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ بزرگوں کیلئے کووِڈ -19 انتہائی مشکل بلکہ بعض اوقات مہلک ثابت ہوسکتا ہے۔

بزرگوں کی دیکھ بال کرنے والوں کیلئے کئی طرح کی احتیاطیں لازمی ہیں ۔بزرگوں کی کسی طرح کی مدد سے پہلے اور بعد میں، جیسے انہیں بیت الخلاٗ لیجانا ہو،کھانا کھلانا ہو یا کچھ اور اکثر کم از کم 20 سکینڈ کیلئے، ہاتھ دھوتے رہنا یا الکوہل والے ’’ہینڈ سینیٹائزر‘‘ سے ہاتھ صاف کرتے رہنا چاہیئے۔

دیکھ بال کرنے والوں کو کھانسنے اور چھینکنے کے دوران مجوزہ احتیاطی تدابیر جیسے ٹشو یا اپنی کہنی میں منھ چھُپانے جیسی احتیاطی تدابیر اختیار کرنی چاہیئں۔ گھروں کے اندر بزرگوں

کے زیرِ استعمال رہنے والے طبی آلات سمیت وہ چیزیں جنہیں بار بار چھوا جاتا ہو انہیں صابن اور پانی یا جراثیم کُش سے صاف کی جانی چاہیئں۔

چلنے پھرنے میں مسائل ہونے کی وجہ سے بزرگوں کا باہری دنیا کے ساتھ بہت کم میل ملاپ ہوتا ہے حالانکہ سماجی رابطہ اُن کے دماغ کو متحرک اور اُنک ے حوصلوں کو بلند رکھنے کیلئے بہت ضروری ہے۔ البتہ دوست احباب کی خبر گیری سے بیمار ہونے کا احتمال اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ذاتی میل ملاپ کو کم سے کم کیا جائے۔ گو دوست احباب سے بات چیت وغیرہ بہت ضروری ہے تاہم ایسا ٹیلی فون وغیرہ کے ذریعہ بھی کیا جا سکاتا ہے۔ پڑوسیوں، گھریلو ملازموں، ڈاکیہ اور اس طرح کے دیگر لوگوں کے ساتھ ان بزرگوں کی گفتگو انہیں سماجی تنہائی کے احساس سے نجات دلانے کے ساتھ ساتھ انہیں باہری دنیا کی سرگرمیوں کے بارے میں مطلع بھی رکھ سکتی ہے۔

بزرگ چھوٹے بچوں کی وجہ سے لطف اندوز ہوتے ہیں کیونکہ بچے اپنے چنچل پن سے بزرگوں کی زندگی میں خوشیاں لاتے ہیں۔ تاہم یہ بات دھیان میں رہنی چاہیئے کہ بچے خود بڑی قوتِ مدافعت رکھتے ہیں لیکن وہ کووِڈ-19 بردار ثابت ہوکر بزرگوں کیلئے بیماری کی وجہ بن سکتے ہیں کیونکہ ان کا آپس میں بڑا میل ملاپ ہوتا ہے۔ اس لئے یہ بات ضروری ہے کہ بچوں کو بزرگوں سے کم از کم 2-1 میٹر کا سماجی فاصلہ رکھنے کیلئے کہا جائے اور اگر خود بچے بیمار لگنے لگیں تو انہیں پوری طرح روبہ صحت ہوجانے تک بزرگوں سے دور رکھا جانا چاہیئے۔

بزرگ افراد دوست احباب اور خاندان کے ساتھ فون اور ویڈیو رابطے کی سہولیات والی ٹیکنالوجی کے ذریعہ جُڑے رہ سکتے ہیں اور وہ بزرگ جو سُننے میں مشکلات سے دوچار ہیں ان مواصلاتی آلات میں دستیاب خصوصی ایپلی کیشنز کا استعمال کرسکتے ہیں جو اسی مقصد سے ہی بنائی گئی ہیں کہ اونچا سُننے والے بھی دور رہ کر رابطے میں رہ سکیں۔ بزرگوں کے خاندان والے اپنے دوست احباب کو اکثر فون کرتے، ٹیکسٹ بھیجتے رہنے اور چھٹیاں لکھتے رہنے کیلئے کہہ سکتے ہیں جنکے ذریعہ ان بزرگوں کی خیریت بھی پوچھی جاتی رہے اور انہیں مصروف بھی رکھا جاسکے۔

چونکہ کئی مذہبی اور روحانی عبادت کے مقامات کو ابھی بند کیا جاچکا ہے بزرگوں کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنی روحانی تسکین کیلئے متبادل ذرائع کا استعمال کرتے رہیں اور اس حوالے سے جُڑے رہیں۔ اس سلسلے میں آن لائن سیشنز، ٹیلی ویژن پروگرام اور اس طرح کے معاملات سے متعلق اعانت کاروں کے ساتھ ٹیلی گفتگو سے کام لیا جاسکتا ہے۔ ہلکی ورزش، یوگا، سانس لینے کی مشق، مراقبہ اور گھر کے اندر عبادت وہ دیگر طریقے ہیں جنکی بدولت روحانی طور پر مضبوط رہا جاسکتا ہے۔

چونکہ بزرگ تفریح کیلئے ٹیلی ویژن دیکھنا پسند کرتے ہیں لیکن ابھی یہ بات ضروری ہے کہ ٹیلی ویژن دیکھنے کا وقت محدود کردیا جائے کیونکہ کووِڈ-19 سے متعلق مسلسل اور پریشان کُن خبروں کی وجہ سے ان بزرگوں کے بے چین ہونے کے امکان ہے۔ بلکہ یہ وقت خاندان کے لوگوں کے ایک ساتھ وقت گذارنے اور بزرگوں سے انکی زندگی کے تجربات کے بارے میں سُننے اور سیکھنےکا ایک اچھا موقع ہے۔ فرصت کے ان اوقات میں اُن سے خاندان کے تصویری البمز کی ترتیب اور مختلف پکوانوں کے بارے میں تجربات پوچھ کر انہیں مثبت انداز میں مصروف رکھا جاسکتا ہے۔

بزرگوں کے بیمار ہونے کی صورت میں یہ بات ضروری ہے کہ طبی امداد طلب کرنے سے پہلے ایک منصوبہ تیار ہو۔ بزرگوں کی دیکھ بال کرنے والوں کو پہلے ہی آس پڑوس میں کلینکوں، اسپتالوں اور دواخانوں کی معلومات رکھنی چاہیئے جو ہمہ وقت دستیاب ہوں۔ دو یا تین مہینے تک کیلئے درکار ادویات کا ذخیرہ ہونے سے یہ پریشانی نہیں رہے گی کہ کہیں ادویات کی قلت پیدا نہ ہوجائے۔ خود دیکھ بال کرنے والے کے بیمار ہونے کی صورت میں ایسا کوئی دوست یا قرابت دار ہو جو بزرگوں کا خیال رکھ سکے۔

مثال کے بطور، میری 92 سالہ والدہ کو چلنے پھرنے میں دقعت ہے اور وہ لمبے عرصہ سے بیمار ہیں لیکن اسکے باوجود وہ کھانا پکانے میں ہماری مدد کرکے، خاندانی امورات میں مشورے اور نصیحتیں دینے اور اپنے بچپن اور جوانی کے قصے کہانیاں سُنانے میں خود کو مصروف رکھتی ہیں۔ہم خاندان کے کمسنوں کے ساتھ اُنکے براہِ راست میل ملاپ کو محدود کئے ہوئے ہیں لیکن ساتھ ہی ہم ان کمسنوں کو ماں کے سامنے گانے گانے، مزاحیہ کہانیاں سُنانے، کیرم جیسے کھیل کھیلتے رہنے اور اس طرح کی سرگرمیوں کیلئے کہتے رہتے ہیں جن سے سماجی فاصلہ برقرار رہنے کے باوجود بھی ماں تنہا نہیں ہوتی ہے اور اُکتا نہیں جاتی ہیں۔

کووِڈ-19 تالہ بندی اور جسمانی تنہائی کی ضرورت کے لمبا کھچ جانے کے امکانات کی وجہ سے زیادہ پریشان کُن ہے لیکن وقت کی ضرورت یہ جسمانی فاصلہ سماجی فاصلہ نہیں بننا چاہیئے بلکہ ایسے محفوظ طریقے تلاش کئے جانے چاہیئے جن سے ہم سماجی طور سے جُڑے رہیں اور ہمارے بزرگ تنہائی اور احساسِ محرومی کا شکار نہ ہوتے ہوئے موجودہ بحران میں جسمانی اور دماغی طور پر تندرست رہیں۔

(وی رامانا دھارا، پروفیسر، انڈین انسٹیچیوٹ آف پبلک ہیلتھ،حیدرآباد)

ساٹھ سال سے زیادہ کی عمر کے لوگوں کو کووِڈ-19 کا سب سے زیادہ خطرہ ہے کیونکہ اُن کی قوتِ مدافعت ایسی نہیں ہوتی جیسی جوانی کے دنوں میں ہوتی تھی۔ پھر بڑی عمر کے لوگوں میں ذیابطیس، بُلڈ پریشر، امراضِ قلب اور سانس لینے وغیرہ کے مسائل عام ہوتے ہیں جن کی وجہ سے یہ لوگ صحت کے حوالے سے پہلے ہی خطرات سے دوچار رہتے ہیں۔ مختلف ممالک میں ہوئی تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ بزرگوں کیلئے کووِڈ -19 انتہائی مشکل بلکہ بعض اوقات مہلک ثابت ہوسکتا ہے۔

بزرگوں کی دیکھ بال کرنے والوں کیلئے کئی طرح کی احتیاطیں لازمی ہیں ۔بزرگوں کی کسی طرح کی مدد سے پہلے اور بعد میں، جیسے انہیں بیت الخلاٗ لیجانا ہو،کھانا کھلانا ہو یا کچھ اور اکثر کم از کم 20 سکینڈ کیلئے، ہاتھ دھوتے رہنا یا الکوہل والے ’’ہینڈ سینیٹائزر‘‘ سے ہاتھ صاف کرتے رہنا چاہیئے۔

دیکھ بال کرنے والوں کو کھانسنے اور چھینکنے کے دوران مجوزہ احتیاطی تدابیر جیسے ٹشو یا اپنی کہنی میں منھ چھُپانے جیسی احتیاطی تدابیر اختیار کرنی چاہیئں۔ گھروں کے اندر بزرگوں

کے زیرِ استعمال رہنے والے طبی آلات سمیت وہ چیزیں جنہیں بار بار چھوا جاتا ہو انہیں صابن اور پانی یا جراثیم کُش سے صاف کی جانی چاہیئں۔

چلنے پھرنے میں مسائل ہونے کی وجہ سے بزرگوں کا باہری دنیا کے ساتھ بہت کم میل ملاپ ہوتا ہے حالانکہ سماجی رابطہ اُن کے دماغ کو متحرک اور اُنک ے حوصلوں کو بلند رکھنے کیلئے بہت ضروری ہے۔ البتہ دوست احباب کی خبر گیری سے بیمار ہونے کا احتمال اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ذاتی میل ملاپ کو کم سے کم کیا جائے۔ گو دوست احباب سے بات چیت وغیرہ بہت ضروری ہے تاہم ایسا ٹیلی فون وغیرہ کے ذریعہ بھی کیا جا سکاتا ہے۔ پڑوسیوں، گھریلو ملازموں، ڈاکیہ اور اس طرح کے دیگر لوگوں کے ساتھ ان بزرگوں کی گفتگو انہیں سماجی تنہائی کے احساس سے نجات دلانے کے ساتھ ساتھ انہیں باہری دنیا کی سرگرمیوں کے بارے میں مطلع بھی رکھ سکتی ہے۔

بزرگ چھوٹے بچوں کی وجہ سے لطف اندوز ہوتے ہیں کیونکہ بچے اپنے چنچل پن سے بزرگوں کی زندگی میں خوشیاں لاتے ہیں۔ تاہم یہ بات دھیان میں رہنی چاہیئے کہ بچے خود بڑی قوتِ مدافعت رکھتے ہیں لیکن وہ کووِڈ-19 بردار ثابت ہوکر بزرگوں کیلئے بیماری کی وجہ بن سکتے ہیں کیونکہ ان کا آپس میں بڑا میل ملاپ ہوتا ہے۔ اس لئے یہ بات ضروری ہے کہ بچوں کو بزرگوں سے کم از کم 2-1 میٹر کا سماجی فاصلہ رکھنے کیلئے کہا جائے اور اگر خود بچے بیمار لگنے لگیں تو انہیں پوری طرح روبہ صحت ہوجانے تک بزرگوں سے دور رکھا جانا چاہیئے۔

بزرگ افراد دوست احباب اور خاندان کے ساتھ فون اور ویڈیو رابطے کی سہولیات والی ٹیکنالوجی کے ذریعہ جُڑے رہ سکتے ہیں اور وہ بزرگ جو سُننے میں مشکلات سے دوچار ہیں ان مواصلاتی آلات میں دستیاب خصوصی ایپلی کیشنز کا استعمال کرسکتے ہیں جو اسی مقصد سے ہی بنائی گئی ہیں کہ اونچا سُننے والے بھی دور رہ کر رابطے میں رہ سکیں۔ بزرگوں کے خاندان والے اپنے دوست احباب کو اکثر فون کرتے، ٹیکسٹ بھیجتے رہنے اور چھٹیاں لکھتے رہنے کیلئے کہہ سکتے ہیں جنکے ذریعہ ان بزرگوں کی خیریت بھی پوچھی جاتی رہے اور انہیں مصروف بھی رکھا جاسکے۔

چونکہ کئی مذہبی اور روحانی عبادت کے مقامات کو ابھی بند کیا جاچکا ہے بزرگوں کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنی روحانی تسکین کیلئے متبادل ذرائع کا استعمال کرتے رہیں اور اس حوالے سے جُڑے رہیں۔ اس سلسلے میں آن لائن سیشنز، ٹیلی ویژن پروگرام اور اس طرح کے معاملات سے متعلق اعانت کاروں کے ساتھ ٹیلی گفتگو سے کام لیا جاسکتا ہے۔ ہلکی ورزش، یوگا، سانس لینے کی مشق، مراقبہ اور گھر کے اندر عبادت وہ دیگر طریقے ہیں جنکی بدولت روحانی طور پر مضبوط رہا جاسکتا ہے۔

چونکہ بزرگ تفریح کیلئے ٹیلی ویژن دیکھنا پسند کرتے ہیں لیکن ابھی یہ بات ضروری ہے کہ ٹیلی ویژن دیکھنے کا وقت محدود کردیا جائے کیونکہ کووِڈ-19 سے متعلق مسلسل اور پریشان کُن خبروں کی وجہ سے ان بزرگوں کے بے چین ہونے کے امکان ہے۔ بلکہ یہ وقت خاندان کے لوگوں کے ایک ساتھ وقت گذارنے اور بزرگوں سے انکی زندگی کے تجربات کے بارے میں سُننے اور سیکھنےکا ایک اچھا موقع ہے۔ فرصت کے ان اوقات میں اُن سے خاندان کے تصویری البمز کی ترتیب اور مختلف پکوانوں کے بارے میں تجربات پوچھ کر انہیں مثبت انداز میں مصروف رکھا جاسکتا ہے۔

بزرگوں کے بیمار ہونے کی صورت میں یہ بات ضروری ہے کہ طبی امداد طلب کرنے سے پہلے ایک منصوبہ تیار ہو۔ بزرگوں کی دیکھ بال کرنے والوں کو پہلے ہی آس پڑوس میں کلینکوں، اسپتالوں اور دواخانوں کی معلومات رکھنی چاہیئے جو ہمہ وقت دستیاب ہوں۔ دو یا تین مہینے تک کیلئے درکار ادویات کا ذخیرہ ہونے سے یہ پریشانی نہیں رہے گی کہ کہیں ادویات کی قلت پیدا نہ ہوجائے۔ خود دیکھ بال کرنے والے کے بیمار ہونے کی صورت میں ایسا کوئی دوست یا قرابت دار ہو جو بزرگوں کا خیال رکھ سکے۔

مثال کے بطور، میری 92 سالہ والدہ کو چلنے پھرنے میں دقعت ہے اور وہ لمبے عرصہ سے بیمار ہیں لیکن اسکے باوجود وہ کھانا پکانے میں ہماری مدد کرکے، خاندانی امورات میں مشورے اور نصیحتیں دینے اور اپنے بچپن اور جوانی کے قصے کہانیاں سُنانے میں خود کو مصروف رکھتی ہیں۔ہم خاندان کے کمسنوں کے ساتھ اُنکے براہِ راست میل ملاپ کو محدود کئے ہوئے ہیں لیکن ساتھ ہی ہم ان کمسنوں کو ماں کے سامنے گانے گانے، مزاحیہ کہانیاں سُنانے، کیرم جیسے کھیل کھیلتے رہنے اور اس طرح کی سرگرمیوں کیلئے کہتے رہتے ہیں جن سے سماجی فاصلہ برقرار رہنے کے باوجود بھی ماں تنہا نہیں ہوتی ہے اور اُکتا نہیں جاتی ہیں۔

کووِڈ-19 تالہ بندی اور جسمانی تنہائی کی ضرورت کے لمبا کھچ جانے کے امکانات کی وجہ سے زیادہ پریشان کُن ہے لیکن وقت کی ضرورت یہ جسمانی فاصلہ سماجی فاصلہ نہیں بننا چاہیئے بلکہ ایسے محفوظ طریقے تلاش کئے جانے چاہیئے جن سے ہم سماجی طور سے جُڑے رہیں اور ہمارے بزرگ تنہائی اور احساسِ محرومی کا شکار نہ ہوتے ہوئے موجودہ بحران میں جسمانی اور دماغی طور پر تندرست رہیں۔

(وی رامانا دھارا، پروفیسر، انڈین انسٹیچیوٹ آف پبلک ہیلتھ،حیدرآباد)

ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.