راجستھان میں سیاسی اتھل پتھل کے دوران سیاسی تجزیہ نگاروں نے اس بات پر تبادلہ خیال کیا کہ راجستھان میں بہوجن سماج پارٹی (بی ایس پی) کے چھ اراکین اسمبلی کا اشوک گہلوت حکومت کے خلاف ووٹ دینے کے بعد یہ معاملہ کیسا موڑ لے گا اور اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے۔
اس گفتگو میں شامل ممتاز وکیل ہیمنت نتا نے بتایا کہ 'بی ایس پی ایک تسلیم شدہ قومی پارٹی ہے۔ اس کے صرف چھ اراکین اسمبلی کے اشارے پر ریاستی سطح پر دستور کے دسویں شیڈول کے پیرا چار کے تحت کسی بھی جماعت میں کوئی انضمام نہیں ہوسکتا۔ جب تک کہ ہر جگہ بی ایس پی کا دوسری جماعت سے انضمام نہ ہو جائے'۔
بتادیں کہ بہوجن سماج پارٹی (بی ایس پی) ریاست میں حکمران جماعت کانگریس کے ساتھ اتحاد میں شامل تھی۔
سینئر صحافی اوم سینی نے کہا ہے کہ 'صرف قانون ساز پارٹی کے رہنما ہی وہپ جاری کرسکتے ہیں'۔
اطلاعات کے مطابق گورنر نے گہلوت سے سیشن بلانے کے لئے اپنی سفارشات دوبارہ پیش کرنے کو کہا ہے۔ اس کے لیے انھوں نے 21 دن کا وقت دیا ہے۔ گورنر نے ریاستی حکومت سے اسمبلی سیشن کے انعقاد کے لیے فائل کو دوبارہ پیش کرنے کو کہا ہے۔
راجستھان کابینیہ کا اجلاس وزیر اعلی اشوک گہلوت کی رہائش گاہ پر منگل کے روز ہوا۔ یہ اجلاس گورنر کی جانب سے پوچھے گئے نکات پر تبادلہ خیال اور لائحہ عمل طئے کرنے کے لیے طلب کیا گیا ہے۔
بتادیں کہ ریاست میں سیاسی بحران ہے کیونکہ حکمراں جماعت کانگریس دو کیمپز میں بٹ گئی ہے، ایک حلقہ سچن پائیلٹ کی طرف ہے تو دوسرا اشوک گہلوت کی حمایت میں ہے۔
اطلاع کے مطابق اٹھارہ دیگر ناراض ارکان اسمبلی نے سی ایل پی اجلاس میں شرکت کے لئے پارٹی وہپ کی خلاف ورزی کی ہے۔
- مزید پڑھیں: راجستھان میں کابینہ کا اجلاس
واضح رہے کہ راجستھان میں جملہ 200 ارکان اسمبلی میں 19 باغی سمیت کانگریس 107 اور بی جے پی 72 ارکان اسمبلی ہیں۔