برطانیہ میں آج ہونے والے انتخابات میں تقریباً 4 کروڑ 60 لاکھ شہری اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے جس میں سخت مقابلے کے بعد کنزر ویٹو پارٹی کی کامیابی کی پیشگوئی کی جارہی ہے۔
اطلاع کے مطابق انتخابات میں ووٹرز کے لیے جو معاملات اہم ہیں ان میں بریگزٹ، سست معیشت، صحت اور سوشل کیئر پروٹیکشن کی کمزور صورتحال، موسمیاتی تبدیلیاں اور امن و عامہ کی صورتحال شامل ہیں۔
اس ضمن میں ڈیٹا کمپنی 'یو گوو' نے انتخابات سے ایک روز قبل جاری کیے گئے ایگزٹ میں پول میں کنزر ویٹو پارٹی کی کامیابی کی پیش گوئی کی ہے، لیکن ساتھ ہی معلق پارلیمنٹ تشکیل دیے جانے کا بھی امکان ظاہر کیا ہے۔
واضح رہے کہ انتخابات میں 18 برس یا اس سے زائد عمر والے رجسٹرڈ برطانوی شہری ووٹ ڈال سکتے ہیں، جس میں 650 مرد و خواتین کا انتخاب کیا جائے گا، جبکہ پارلیمنٹ میں اکثریت پانے کے لیے کسی بھی پارٹی کا 326 نشستیں جیتنا ضروری ہے۔
مذکورہ انتخابات کو برطانیہ کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کنزرویٹو اور لیبر پارٹی کی جانب سے 'نسل کے لیے نہایت اہم' قرار دیا جارہا ہے، کیوں کہ دونوں جماعتوں کا بریگزٹ اور عوام پر خرچ کرنے کے حوالہ سے نقطہ نظر یکسر مختلف ہے۔
اسی انتخاب کے نتیجے میں متوقع طور پر اس بات کا فیصلہ ہوجائے گا کہ بریگزٹ ریفرنڈم کے ساڑھے تین برس بعد برطانیہ کس طرح یوروپی یونین سے خارج ہوگا۔
کئی برس سے بریگزٹ کا حساس معاملہ برطانوی سیاست پر چھایا ہوا ہے۔آئندہ ماہ ملک میں پھر انتخابات منعقد ہوں گے۔ بھارت کے لیے بریگزٹ کا کیا رول ہے اور یہ کس حد تک برطانوی پالیسی پر اثر انداز ثابت ہوگا، اس پر سابق سفارتکار ویشنو پرکاش نے ای ٹی وی بھارت کیلئے خصوصی تجزیہ تحریر کیا ہے۔
واضح رہے کہ کنزرویٹیو پارٹی کی وزیراعظم تھریسامے کو اپنے پیش رو ڈیوڈ کیمرون سے معمولی اکثریت (650 ارکان کی پارلیمان میں 330 ممبر) ورثے میں ملی تھی، جبکہ کیمرون نے بریگزٹ رائے شماری کے منفی نتیجے کے پس منظر میں استعفیٰ دیا تھا۔
بریگزٹ مسئلہ نے پورے برطانیہ میں سیاسی عدم استحکام پھیلانے کا کام کیا ہے۔
برطانوی پارلیمنٹ نے وزیر اعظم تھریسا کی یوروپی یونین کو چھوڑنے کی تجویز کو تین مرتبہ مسترد کردیا، یہی وجہ تھی کہ انہیں بھی رواں برس وزیراعظم کے عہدے سے استعفی دینا پڑا تھا۔
بعد ازاں کنزرویٹیو پارٹی کے رہنما اور بریگزٹ مہم کو لیڈ کرنے والوں میں پیش رہنے والے بریگزٹ کے حامی بورس جانسن کو 24 جولائی کو وزیراعظم بنایا گیا۔
بروسیلس سے تعلق رکھنے والے ایک صحافی نے برطانیہ کو یوروپی یونین سے علیحدگی اختیار کرنے کے سلسلے میں مہم کی شروعات کی، لیکن 17 اکتوبر 2019 کو برطانیہ کا یوروپی یونین کے ساتھ رہنے والے معاہدہ پر انہوں نے کہا کہ 'یہ معاہدہ ہمارے ملک کے لیے بہتر ہے'۔