ETV Bharat / bharat

آسارام کو جیل بھیجنے کے جدوجہد پر کتاب - کنگ فار دی گاڈمین نامی ایک کتاب

راجستھان کے جودھ پور ہائی کورٹ کے جج مدھوسدن شرما نے 25 اپریل 2018 کو جنسی زیادتی معاملے میں آسارام کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔اب آسارام کے اوپر ایک کتاب لکھی گئی ہے کہ کس طرح راجستھان پولیس نے آسارام کو گرفتار کرنے کےلیے جدوجہد کی۔

آسارام کو جیل بھیجنے کے جدوجہد پر لکھی گئی کتاب
آسارام کو جیل بھیجنے کے جدوجہد پر لکھی گئی کتاب
author img

By

Published : Aug 13, 2020, 3:25 PM IST

25 اپریل 2018 کو جودھ پور ہائی کورٹ نے سنہ 2013 میں آشرم کی ایک لڑکی سے جنسی زیادتی کے معاملے میں عمر قید کی سزا سنائی تھی۔آسارام کو جودھپور پولیس نے 31 اگست 2013 کو چھندواڑا آشرم سے گرفتار کیا تھا۔جس کے بعد آسارام کو گرفتار کرنے اور انہیں سلاخوں کے پیچھے پہنچانے والے ڈی آئی جی اجئے پال لامبا نے آسارام کے جنسی زیادتی معاملے کے بارے میں'کننگ فار دی گاڈمین' نامی ایک کتاب لکھی ہے۔

آسارام کو جیل بھیجنے کے جدوجہد پر لکھی گئی کتاب

یہ کتاب آسارام کے جنسی زیادتی کیس سے متعلق ہر پہلو اور اس کے پیچھے چھپی ہوئی سچائی کو بیان کرتی ہے، یہ کتاب ان تمام سوالوں کے جواب دے گئی جو آسارام کی گرفتاری سے لے کر اسے سزا دلانے تک کی جدوجہد کو بتاتی ہے۔

سال 2013 میں آسارام باپو کے خلاف ایف آئی آر درج کے 10 دن کے اندر گرفتار کیا گیا تھا۔اس دوران ملنے والی دھمکیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے خود کو اور پوری پولیس ٹیم کو متحرک کرتے ہوئے اس معاملے سے وابستہ تمام شواہد کو کیسے جمع کیا؟ اس دوران پولیس ٹیم کو کس طرح کی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا، ان تمام پہلوؤں کا ذکر کتاب میں کیا گیا ہے۔

'گنگ فار دی گاڈمین' نامی اس کتاب کے بارے میں ای ٹی وی بھارت سے خصوصی گفتگو کے دوران ڈی آئی جی اجئے پال لامبا نے بتایا کہ کس طرح سے ایف آئی آر درج ہونے کے بعد آسارام کو گرفتار کر کے جودھپور لایا گیا اور عدالت میں چالان پیش کر کے آسارام کو سزا دلائی گئی۔اس معاملے کو لے کر پورے ملک میں مظاہرے ہوئے اور اس معاملے کی تحقیقات میں مصروف پولیس ٹیم کو دھمکی دی گئی ۔

ڈی آئی جی بتاتے ہیں کہ کس طرح جودھپور پولیس کی ٹیم جب ان سے پوچھ گچھ کرنے آشرام پہنچی تو آسارام نے ستیہ سنگ شروع کردی۔ستیہ سنگ کے ختم ہونے کے بعد وہ آرام کرنے چلے گئے۔لیکن پولیس کی ٹیم بنا ہلے وہیں رہی۔دو دن تک پولیس کے ساتھ آنکھ مچولی کے بعد آسارام کو پولیس نے سینچر کے روز یعنی 31 اگست 2013 کو اندور سے گرفتار کیا تھا۔

جودھپور پولیس آسارام کو گرفتار کرکے جیسے ہی اندور کے آشرم سے باہر نکلی تو آسارام کے سینکڑوں حامیوں نے ان کی حمایت میں اور پولیس کے خلاف نعرے بازی شروع کردی تھی۔

ڈی آئی جی کے مطابق پولیس کی ابتدائی تفتیش میں آسارام نے دعوی کیا تھا کہ وہ نامرد ہیں لیکن اس کے بعد جب ان کی پوٹینسی (مردانگی) کی جانچ کرائی گئی تو ان کی یہ بات جھوٹی ثابت ہوئی۔

اس کے بعد کئی بار انہوں نے طبعیت خراب ہونے کا بہانہ دے کر ضمانت لینے کی کوشش کی لیکن انہیں ضمانت نہٰیں ملی۔آسارام کی گرفتاری سے لےکر اب 25 اپریل کو ان کے خلاف جنسی زیادتی معاملے میں عدالت کا فیصلہ آنے تک ان کے عقیدتمندوں نے ہر طرح سے اپنے باپو کو ضمانت دلانے کی کوشش کی۔سوشل میڈیا سے لے کر سڑکوں پر مظاہرے کیے گئے۔

ڈی جی آئی لامبا بتاتے ہیں کہ پولیس کی 'دی ٹف 20' ٹیم نے آسارام کو گرفتار کیا تھا۔اس دوران انہیں کس طرح کے مسائل کا سامنا کرنا، کس طرح کے تناؤ کا سامنا کرنا پڑا، ان تمام باتوں کا تذکرہ اس کتاب میں کیا گیا ہے۔

ڈی آئی جی اجئے پال لامبا نے آسارام جنسی زیادتی معاملے سے متعلق ایک بات یاد کرتے ہوئے کہا کہ آج بھی اس بات کو یاد کرتےہوئے وہ حیرت زدہ ہوجاتے ہیں ۔جب آسارام کو گرفتار کرنے کے لیے اسپیشل ٹیم اندور میں آسارام کے آبائی آشرم پہنچی اور جب آسارام کو گرفتار کیا گیا تھا تو اس دوران وہاں احتجاج کیا جارہا تھا،

خصوصی ٹیم کے دیگر افسران آشرم سے آسارام ​​کو گرفتار کرنے کے بعد فوری طور پر ہوائی اڈے کی طرف جارہے تھے ، لیکن ایک خاتون افسر وہاں آشرم میں ہی پھنس گئیں تھی ۔اتنے نازک وقت میں خاتون پولیس افسر نے ہمت نہیں ہاری اور بڑی بہادری سے کام لیکر آشرم سے باحفاظت باہر نکلنے میں کامیاب ہوئی۔ اس پورے واقعہ میں یہ پولیس کے سامنے سب سے زیادہ حساس اور خوفناک بات رہی ہے۔

ڈی آئی جی اجے پال لامبا بتاتے ہیں کہ آسارام ​​کی گرفتاری کے بعد جب پورا واقعہ عدالت میں چل رہا تھا۔ اس دوران اس معاملے سے وابستہ تمام پولیس اہلکار اور گواہوں کو مسلسل آسارام کے بھگتوں اور دیگر لوگوں کے ذریعہ دھمکیاں دی جارہی تھی۔اس دوران بہت سے شواہدین کا قتل بھی کردیا گیا اور کئی لوگوں پر قتل کی نیت سے حملہ بھی کیا گیا۔اس کے باوجود بھی پولیس ٹیم کے افسران اور ملازمین نے بے خوف ہوکر اپنے فرائض کو انجام دیا۔

عدالت میں ٹرائل کے دوران اور جس دن عدالت کے ذریعہ فیصلہ سنایا گیا، اس دن جودھپور میں آسارام کے عقیدتمندوں کے ذریعہ کسی بھی طرح کے مظاہرے کی اجازت نہیں دی گئی۔اس واقعہ کے ہرموڑ پر پولیس ایک مضبوط دیوار کی طرح کھڑی رہی اور آسارام کو سزا دلا کر ہی سانس لی۔

25 اپریل 2018 کو جودھ پور ہائی کورٹ نے سنہ 2013 میں آشرم کی ایک لڑکی سے جنسی زیادتی کے معاملے میں عمر قید کی سزا سنائی تھی۔آسارام کو جودھپور پولیس نے 31 اگست 2013 کو چھندواڑا آشرم سے گرفتار کیا تھا۔جس کے بعد آسارام کو گرفتار کرنے اور انہیں سلاخوں کے پیچھے پہنچانے والے ڈی آئی جی اجئے پال لامبا نے آسارام کے جنسی زیادتی معاملے کے بارے میں'کننگ فار دی گاڈمین' نامی ایک کتاب لکھی ہے۔

آسارام کو جیل بھیجنے کے جدوجہد پر لکھی گئی کتاب

یہ کتاب آسارام کے جنسی زیادتی کیس سے متعلق ہر پہلو اور اس کے پیچھے چھپی ہوئی سچائی کو بیان کرتی ہے، یہ کتاب ان تمام سوالوں کے جواب دے گئی جو آسارام کی گرفتاری سے لے کر اسے سزا دلانے تک کی جدوجہد کو بتاتی ہے۔

سال 2013 میں آسارام باپو کے خلاف ایف آئی آر درج کے 10 دن کے اندر گرفتار کیا گیا تھا۔اس دوران ملنے والی دھمکیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے خود کو اور پوری پولیس ٹیم کو متحرک کرتے ہوئے اس معاملے سے وابستہ تمام شواہد کو کیسے جمع کیا؟ اس دوران پولیس ٹیم کو کس طرح کی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا، ان تمام پہلوؤں کا ذکر کتاب میں کیا گیا ہے۔

'گنگ فار دی گاڈمین' نامی اس کتاب کے بارے میں ای ٹی وی بھارت سے خصوصی گفتگو کے دوران ڈی آئی جی اجئے پال لامبا نے بتایا کہ کس طرح سے ایف آئی آر درج ہونے کے بعد آسارام کو گرفتار کر کے جودھپور لایا گیا اور عدالت میں چالان پیش کر کے آسارام کو سزا دلائی گئی۔اس معاملے کو لے کر پورے ملک میں مظاہرے ہوئے اور اس معاملے کی تحقیقات میں مصروف پولیس ٹیم کو دھمکی دی گئی ۔

ڈی آئی جی بتاتے ہیں کہ کس طرح جودھپور پولیس کی ٹیم جب ان سے پوچھ گچھ کرنے آشرام پہنچی تو آسارام نے ستیہ سنگ شروع کردی۔ستیہ سنگ کے ختم ہونے کے بعد وہ آرام کرنے چلے گئے۔لیکن پولیس کی ٹیم بنا ہلے وہیں رہی۔دو دن تک پولیس کے ساتھ آنکھ مچولی کے بعد آسارام کو پولیس نے سینچر کے روز یعنی 31 اگست 2013 کو اندور سے گرفتار کیا تھا۔

جودھپور پولیس آسارام کو گرفتار کرکے جیسے ہی اندور کے آشرم سے باہر نکلی تو آسارام کے سینکڑوں حامیوں نے ان کی حمایت میں اور پولیس کے خلاف نعرے بازی شروع کردی تھی۔

ڈی آئی جی کے مطابق پولیس کی ابتدائی تفتیش میں آسارام نے دعوی کیا تھا کہ وہ نامرد ہیں لیکن اس کے بعد جب ان کی پوٹینسی (مردانگی) کی جانچ کرائی گئی تو ان کی یہ بات جھوٹی ثابت ہوئی۔

اس کے بعد کئی بار انہوں نے طبعیت خراب ہونے کا بہانہ دے کر ضمانت لینے کی کوشش کی لیکن انہیں ضمانت نہٰیں ملی۔آسارام کی گرفتاری سے لےکر اب 25 اپریل کو ان کے خلاف جنسی زیادتی معاملے میں عدالت کا فیصلہ آنے تک ان کے عقیدتمندوں نے ہر طرح سے اپنے باپو کو ضمانت دلانے کی کوشش کی۔سوشل میڈیا سے لے کر سڑکوں پر مظاہرے کیے گئے۔

ڈی جی آئی لامبا بتاتے ہیں کہ پولیس کی 'دی ٹف 20' ٹیم نے آسارام کو گرفتار کیا تھا۔اس دوران انہیں کس طرح کے مسائل کا سامنا کرنا، کس طرح کے تناؤ کا سامنا کرنا پڑا، ان تمام باتوں کا تذکرہ اس کتاب میں کیا گیا ہے۔

ڈی آئی جی اجئے پال لامبا نے آسارام جنسی زیادتی معاملے سے متعلق ایک بات یاد کرتے ہوئے کہا کہ آج بھی اس بات کو یاد کرتےہوئے وہ حیرت زدہ ہوجاتے ہیں ۔جب آسارام کو گرفتار کرنے کے لیے اسپیشل ٹیم اندور میں آسارام کے آبائی آشرم پہنچی اور جب آسارام کو گرفتار کیا گیا تھا تو اس دوران وہاں احتجاج کیا جارہا تھا،

خصوصی ٹیم کے دیگر افسران آشرم سے آسارام ​​کو گرفتار کرنے کے بعد فوری طور پر ہوائی اڈے کی طرف جارہے تھے ، لیکن ایک خاتون افسر وہاں آشرم میں ہی پھنس گئیں تھی ۔اتنے نازک وقت میں خاتون پولیس افسر نے ہمت نہیں ہاری اور بڑی بہادری سے کام لیکر آشرم سے باحفاظت باہر نکلنے میں کامیاب ہوئی۔ اس پورے واقعہ میں یہ پولیس کے سامنے سب سے زیادہ حساس اور خوفناک بات رہی ہے۔

ڈی آئی جی اجے پال لامبا بتاتے ہیں کہ آسارام ​​کی گرفتاری کے بعد جب پورا واقعہ عدالت میں چل رہا تھا۔ اس دوران اس معاملے سے وابستہ تمام پولیس اہلکار اور گواہوں کو مسلسل آسارام کے بھگتوں اور دیگر لوگوں کے ذریعہ دھمکیاں دی جارہی تھی۔اس دوران بہت سے شواہدین کا قتل بھی کردیا گیا اور کئی لوگوں پر قتل کی نیت سے حملہ بھی کیا گیا۔اس کے باوجود بھی پولیس ٹیم کے افسران اور ملازمین نے بے خوف ہوکر اپنے فرائض کو انجام دیا۔

عدالت میں ٹرائل کے دوران اور جس دن عدالت کے ذریعہ فیصلہ سنایا گیا، اس دن جودھپور میں آسارام کے عقیدتمندوں کے ذریعہ کسی بھی طرح کے مظاہرے کی اجازت نہیں دی گئی۔اس واقعہ کے ہرموڑ پر پولیس ایک مضبوط دیوار کی طرح کھڑی رہی اور آسارام کو سزا دلا کر ہی سانس لی۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.