کانگریس پارٹی کے ترجمان پون کھیڑا نے منگل کو یہاں پریس کانفرنس میں کہا کہ بی جے پی کے ساتھ فیس بک کے کتنے اچھے اور پرانے تعلقات ہیں اور فیس بک کس طرح سے بی جے پی کے لئے لابنگ کرتا ہے اس کا پتہ جولائی 2012 کے ایک میمو سے پتہ چلتا ہے جس میں فیس بک کی ایک خاتون افسر نے لکھا ہے کہ حکومت کے ساتھ اس وقت ایک میٹنگ ہونی تھی جس میں اس وقت کے وزیر تعلیم کپل سبل کو شامل ہونا تھا۔
اس میٹنگ میں حصہ لینے والے بی جے پی کے اراکین پارلیمان کو فیس بک کی چیف افسر انکھی داس نے صلاح دی تھی کہ انہیں وزیر کے سامنے صرف اتنا کہنا ہے کہ معاملہ عدالت کے زیرغور ہے اس لئے اس بارے میں کوئی بات کرنا ٹھیک نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ پائریسی پر حکومت کو ایک قانون بنانا تھا اور جج شاہ کو اس کمیٹی کے اراکین کے ذریعہ پائریسی قانون تیار کرنے کیلئے کام چل رہا تھا۔ بی جے پی کی فیس بک سے تب بھی ساز باز تھی۔
فیس بک نے بی جے پی کے لئے اتنی زبردست لابنگ کی کہ اس کے سہارے بی جے پی برسراقتدار آئی۔ اب اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جب یہ پارٹی اپوزیشن میں رہتے ہوئے اتنی لابنگ کرسکتی ہے تو اقتدار میں آنے کے بعد اس کی کیا حالت ہوگی۔ کانگریس کے ترجمان پون کھیڑا نے کہا کہ وزیراعظم نریندر مودی نے 26 مارچ 2018 میں ہوئی پارٹی کے اراکین پارلیمان کی میٹنگ میں کہا کہ فیس بک میں کم از کم تین لاکھ لائک ایک شخص کو ملنے چاہئیں۔
یہ انتخابات میں ٹکٹ حاصل کرنے کے لئے شرط تھی۔ ستمبر 2018 میں انتخابات سے متعلق میٹنگ میں وزیر داخلہ امت شاہ نے سوشل میڈیا کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے راجستھان میں کہا تھا کہ وہ جانتے ہیں سوشل میڈیا کے ذریعہ وہ کام مکمل ہوجاتا ہے۔ بی جے پی کی اس طرح کی کئی مثالیں بی جے پی کے فیس بک سے رشتہ کو ظاہر کرتی ہیں۔
مزید پڑھیں:
کانگریس کا فیس بک سے نفرت پھیلانے کی اعلی سطحی جانچ کرانے کا مطالبہ
انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن رائے دہندگان کی بیداری کے لئے فیس بک کے ساتھ اتحاد کرتا ہے اور لوگوں کو فیس بک کے ذریعہ پولنگ کے بارے میں بیدار کرنے کیلئے معاہدہ کرتا ہے لیکن ایک سال بعد مارچ 2018میں اس وقت کے الیکشن کمشنر او پی راوت فیس بک کے ساتھ کئے گئے اتحاد کے جائزہ کی بات کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس اتحاد سے ڈاٹا متاثر ہوسکتا ہے لیکن اس کے چار دن بعد وہی الیکشن کمشنر کہتے ہیں اتحاد قائم رہے گا۔