آج منٹو کو یاد کرنا اس لیے ضروری ہے کہ اپنے عہد میں اپنی صلاحیت کا لوہا منوانے کے ساتھ آج تک لوگوں کے دلوں پر راز کرنے والے ادیب کی آج تاریخ پیدائش ہے۔
منٹو آج ہی کے دن یعنی 11 مئی 1912 کو انگریزی حکومت میں صوبہ پنجاب کے لدھیانہ میں پیدا ہوئے تھے۔
جب منٹو پیدا ہوئے تو ان کے والد نے ان کا نام سعادت حسین رکھا یعنی منٹو نے اپنی زندگی کی شروعات سعادت حسن سے کی لیکن دنیا سے رخصت ہوتے وقت کبھی نہ مرنے والا نام 'منٹو' لے کر رخصت ہوئے۔
آج میں اس حوالے سے بات نہیں کرنا چاہتا ہوں کہ منٹو نے 22 افسانوی مجموعوں کے علاوہ خاکوں کا مجموعہ گنجے فرشتے اور دیگر اصناف میں طبع آزمائی کی ہوئی تحریر چھوڑی ہے۔
آج ان موضوعات پر بات کرنی ہے جس کی وجہ سے انہیں عدالت کے کٹہرے میں گھڑا ہو کر منصفوں اور وکلا کے سوالات کا جواب دینا پڑا تھا۔
آج کے تناظر میں دیکھا جائے تو وہ مسائل یا موضوعات ایسے نہیں تھے جن کی وجہ سے انہیں کورٹ اور کچہری کا طواف کرنا پڑا تھا۔
منٹو کو اس بات کو ثابت کرنا پڑا تھا کہ انہوں نے سماج میں خلفشار نہیں بلکہ معاشرے میں پھیلی گندگی کو کرید کر لوگوں کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔
منٹو اپنے ان افسانوں سے زیادہ معروف و مقبول ہیں جن سے مذہبی پیشواؤں اور ان کے ساتھ قدامت پسند افراد نے نا اتفاقیاں ظاہر کی ہیں۔
ٹھنڈا گوشت، کالی شلوار، کھول دو، ٹوبا ٹیگ سنگھ اور بو ان کے متنازع افسانے ہیں جن کی وجہ سے ان پر مقدمات چلائے گئے اور انہں معتوب کیا گیا۔
موجودہ عہد میں منٹو پر فلمیں بنائی گئیں اور ان کو ان کے عہد کا سب سے عظیم افسانہ نگار قرار دیا گیا۔
پاکستان میں صبا قمر اور بھارت میں نندیتا داس نے ان پر فلمیں بنائیں۔جو کافی مشہور و مقبول ہوئیں ہیں۔
آج منٹو کی شہرت اور مقبولیت سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ وہ ایک بڑے اور عہد ساز افسانہ نگار ہیں۔