ETV Bharat / bharat

ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں: سائنسی مہرِ تصدیق ثبت - زمین کے مخصوص ارتقائی حالات

'انساں الٹ رہا ہے رُخ زیست سے نقاب' اور'ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں'۔ بالترتیب اہل علم اور اہل عقیدہ دونوں کی اس سوچ سے سرشاری پر سائنس نے امکانی مہر تصدیق ثبت کردی ہے۔

ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں: سائنسی مہرِ تصدیق ثبت
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں: سائنسی مہرِ تصدیق ثبت
author img

By

Published : Jun 16, 2020, 9:50 PM IST

سائنسی تحقیق کے معتبر جریدے 'جرنل آف ایسٹرو فزکس' میں مطبوعہ ایک نئی رپورٹ کے مطابق ستاروں کی کہکشاں یا گیلکسی میں زندگی اور ذہانت سے بھرپور کوئی ایک دو نہیں بلکہ چتھیس مختلف تہذیبوں کی موجودگی کا امکان ہے۔

تحقیق کے لئے مفروضات سے استفادہ کرنے کی روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے خلائی مخلوق کی جستجو کے رخ پر برطانیہ کی 'ناٹنگھیم یونیورسٹی' کے سائنسی ماہرین نے اس بات کو بنیاد بنایا کہ جس زمین پر ہم آباد ہیں، اسی کی طرح باقی سیاروں پر بھی ذہانت سے بھرپور مخلوق کے ابھرنے میں کوئی پانچ ارب سال لگتے ہیں۔

آن لائن ڈوئچے ویلے میں شائع متعلقہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ' ان سائنس دانوں نے اس کے بعد کہکشاں میں ایسے سیارے ڈھونڈے جن کی عمر، ان کا اپنے سورج سے فاصلے، وہاں کا درجہ حرارت اور دیگر حالات ہمارے سیارے جیسے ہوں'۔

اس طرح وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ اگر اپنی زمین کے مخصوص ارتقائی حالات میں ہم تمام مخلوقات میں سب سے ذہین ہونے کا دعویٰ کر سکتے ہیں تو اسی قسم کے ارتقائی حالات دیگر سیاروں پر بھی ہوں گے جو ذہین مخلوق کے سامنے آنے کا سبب بن سکتے ہیں۔

یہ بات بھی سائنس دانوں کے نزدیک بعید از امکان نہیں کہ کوئی ہم سے بھی زیادہ ذہین مخلوق اس کائنات میں موجود ہو۔

اس رخ پراب تک جو سائنسی معلومات سامنے آئی ہیں ان کا بڑا سہرا ماہرِ فلکیات فرینک ڈریک کے سر بندھتا ہے جنہوں نے سنہ 1961 میں مزید پیش رفت کی بنیاد بننے کے متحمل تحقیقی نتائج پیش کئے تھے۔

ڈوئچے ویلے نے 'جرنل آف ایسٹرو فزکس' کے حوالے سے مزید رپورٹ دی ہے کہ 'جرنل آف ایسٹرو فزکس'، 'جرنل آف ایسٹرو فزکس'، 'ڈریک ایکویشن' نے جو فرینک ڈریک کے نام سے ہی منسوب ہے، فلکیات کے ماہرین کو یہ اندازہ لگانے کا متحمل بنایا کہ ہماری کہکشاں میں مواصلاتی صلاحیت کی حامل کتنی تہذیبیں ہو سکتی ہیں۔

'یونیورسٹی آف ناٹنگھیم' کے ماہرین کا بہر حال خیال یہ ہے کہ 'ڈریک ایکویشن' کی افادیت کی محدودیت نے ہی انہیں مزید تحقیق کے لیے نئی جہتوں پر کام کرنی کی تحریک دی ہے'۔

ماہرین کے مطابق نئی تحقیق کی بنیاد اس دوٹوک مفروضے پر ہے کہ سیاروں پر زندگی کیسے، کن حالات میں اور کتنے عرصے میں ابھرتی ہے؟

ماہرین کے مطابق ان سوالوں کے جواب حاصل کرنے کے بعد ہم یہ بات اور زیادہ اعتماد کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے علاوہ بھی اس کہکشاں میں درجنوں دیگر ذہین مخلوق کا وجود ممکن ہے۔ اس کام کو نتیجہ خیز بنانے میں میں بہر حال ہزاروں برس لگ سکتے ہیں کیونکہ جن چھتیس تہذیبوں کی نشاندہی کی گئی ہے وہ ہم سے اوسطاً سترہ ہزار نوری سال دور ہیں۔ فلکیات کے میدان میں ایک نوری سال لگ بھگ چھ کھرب میل دور ہوتا ہے۔

اسی رپورٹ کے مطابق اس تازہ تحقیق کا سائنس دانوں نے ایک دلچسپ پہلو یہ بھی دکھایا ہے کہ اس تحقیق سے نہ صرف خلا میں موجود دیگر مخلوق تک رسائی ممکن ہے بلکہ یہ اندازہ بھی ہو جائے گا کہ جس سیارے پر ہم سانس لے رہے ہیں اس کی اپنی حیات کتنی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ جستجو کا یہ سفر دوطرفہ طور پر اس دن اور آسان ہو سکتا ہے جس دن یہ تصدیق ہو جائے گا کہ وہ بھی ہماری طرح خلاء میں ریڈیو ٹرانسمشن، سیٹیلائیٹ اور ٹی وی کے ذریعے سنگل بھیج رہے ہیں۔دیکھنا ہے کس کا اشارہ پہلے پہنچتا ہے۔

ہم جس زمین پرعلم کا سفر طے کر رہے ہیں وہاں تکنیکی انقلاب کی عمر ابھی سو سال ہے۔ اگر کسی خلائی مخلوق کا سگنل ہم تک پہلے پہنچ گیا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ترقی میں وہ ہم سے آگے ہیں۔ ایسا ہوتا ہے تو اس سے یہ بھی از خود تصدیق ہو جائے گی کہ ہمارے سیارے کی عمر لمبی ہے۔

سائنسی تحقیق کے معتبر جریدے 'جرنل آف ایسٹرو فزکس' میں مطبوعہ ایک نئی رپورٹ کے مطابق ستاروں کی کہکشاں یا گیلکسی میں زندگی اور ذہانت سے بھرپور کوئی ایک دو نہیں بلکہ چتھیس مختلف تہذیبوں کی موجودگی کا امکان ہے۔

تحقیق کے لئے مفروضات سے استفادہ کرنے کی روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے خلائی مخلوق کی جستجو کے رخ پر برطانیہ کی 'ناٹنگھیم یونیورسٹی' کے سائنسی ماہرین نے اس بات کو بنیاد بنایا کہ جس زمین پر ہم آباد ہیں، اسی کی طرح باقی سیاروں پر بھی ذہانت سے بھرپور مخلوق کے ابھرنے میں کوئی پانچ ارب سال لگتے ہیں۔

آن لائن ڈوئچے ویلے میں شائع متعلقہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ' ان سائنس دانوں نے اس کے بعد کہکشاں میں ایسے سیارے ڈھونڈے جن کی عمر، ان کا اپنے سورج سے فاصلے، وہاں کا درجہ حرارت اور دیگر حالات ہمارے سیارے جیسے ہوں'۔

اس طرح وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ اگر اپنی زمین کے مخصوص ارتقائی حالات میں ہم تمام مخلوقات میں سب سے ذہین ہونے کا دعویٰ کر سکتے ہیں تو اسی قسم کے ارتقائی حالات دیگر سیاروں پر بھی ہوں گے جو ذہین مخلوق کے سامنے آنے کا سبب بن سکتے ہیں۔

یہ بات بھی سائنس دانوں کے نزدیک بعید از امکان نہیں کہ کوئی ہم سے بھی زیادہ ذہین مخلوق اس کائنات میں موجود ہو۔

اس رخ پراب تک جو سائنسی معلومات سامنے آئی ہیں ان کا بڑا سہرا ماہرِ فلکیات فرینک ڈریک کے سر بندھتا ہے جنہوں نے سنہ 1961 میں مزید پیش رفت کی بنیاد بننے کے متحمل تحقیقی نتائج پیش کئے تھے۔

ڈوئچے ویلے نے 'جرنل آف ایسٹرو فزکس' کے حوالے سے مزید رپورٹ دی ہے کہ 'جرنل آف ایسٹرو فزکس'، 'جرنل آف ایسٹرو فزکس'، 'ڈریک ایکویشن' نے جو فرینک ڈریک کے نام سے ہی منسوب ہے، فلکیات کے ماہرین کو یہ اندازہ لگانے کا متحمل بنایا کہ ہماری کہکشاں میں مواصلاتی صلاحیت کی حامل کتنی تہذیبیں ہو سکتی ہیں۔

'یونیورسٹی آف ناٹنگھیم' کے ماہرین کا بہر حال خیال یہ ہے کہ 'ڈریک ایکویشن' کی افادیت کی محدودیت نے ہی انہیں مزید تحقیق کے لیے نئی جہتوں پر کام کرنی کی تحریک دی ہے'۔

ماہرین کے مطابق نئی تحقیق کی بنیاد اس دوٹوک مفروضے پر ہے کہ سیاروں پر زندگی کیسے، کن حالات میں اور کتنے عرصے میں ابھرتی ہے؟

ماہرین کے مطابق ان سوالوں کے جواب حاصل کرنے کے بعد ہم یہ بات اور زیادہ اعتماد کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے علاوہ بھی اس کہکشاں میں درجنوں دیگر ذہین مخلوق کا وجود ممکن ہے۔ اس کام کو نتیجہ خیز بنانے میں میں بہر حال ہزاروں برس لگ سکتے ہیں کیونکہ جن چھتیس تہذیبوں کی نشاندہی کی گئی ہے وہ ہم سے اوسطاً سترہ ہزار نوری سال دور ہیں۔ فلکیات کے میدان میں ایک نوری سال لگ بھگ چھ کھرب میل دور ہوتا ہے۔

اسی رپورٹ کے مطابق اس تازہ تحقیق کا سائنس دانوں نے ایک دلچسپ پہلو یہ بھی دکھایا ہے کہ اس تحقیق سے نہ صرف خلا میں موجود دیگر مخلوق تک رسائی ممکن ہے بلکہ یہ اندازہ بھی ہو جائے گا کہ جس سیارے پر ہم سانس لے رہے ہیں اس کی اپنی حیات کتنی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ جستجو کا یہ سفر دوطرفہ طور پر اس دن اور آسان ہو سکتا ہے جس دن یہ تصدیق ہو جائے گا کہ وہ بھی ہماری طرح خلاء میں ریڈیو ٹرانسمشن، سیٹیلائیٹ اور ٹی وی کے ذریعے سنگل بھیج رہے ہیں۔دیکھنا ہے کس کا اشارہ پہلے پہنچتا ہے۔

ہم جس زمین پرعلم کا سفر طے کر رہے ہیں وہاں تکنیکی انقلاب کی عمر ابھی سو سال ہے۔ اگر کسی خلائی مخلوق کا سگنل ہم تک پہلے پہنچ گیا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ترقی میں وہ ہم سے آگے ہیں۔ ایسا ہوتا ہے تو اس سے یہ بھی از خود تصدیق ہو جائے گی کہ ہمارے سیارے کی عمر لمبی ہے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.