مسلم پرسنل لا بورڈ نے بھومی پوجا پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ غاصبانہ قبضہ سے حقیقت ختم نہیں ہوجاتی۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ غیرمنصفانہ ہے جبکہ اس فیصلہ نے انصاف کو شرمسار کیا ہے۔
بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا ولی رحمانی نے بیان میں کہا کہ بابری مسجد کے مقام پر مندر کے لیے بھومی پوجا کے موقع پر بورڈ اپنے اس موقف کو دہرانا ضروری سمجھتا ہے کہ شریعت کی روشنی میں جہاں ایک بار مسجد قائم ہوتی ہے وہ تاقیامت موجود رہتی ہے۔ مسجد میں مورتیا رکھنے سے، پوجا کرنے سے یا لمبے عرصہ تک نماز پر روک لگانے سے مسجد کی حیثیت ختم نہیں ہوجاتی۔
انہوں نے کہا کہ ہمارا ہمیشہ یہ بھی موقف رہا ہے کہ بابری مسجد کسی مندر کو توڑ کر نہیں بنائی گئی جبکہ سپریم کورٹ نے بھی اپنے فیصلہ میں اس کی تصدیق کی ہے۔
مولانا ولی رحمانی نے کہا کہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ میں یہ بھی مانا کہ بابری مسجد میں 22 دسمبر 1949 تک نماز ادا ہوتی رہی، 22 دسمبر 1949 کو بابری مسجد میں مورتیاں رکھنا غیرقانونی اور غیردستوری عمل تھا، 6 دسمبر 1992 کو بابری مسجد کی شہادت غیردستوری، غیرقانونی اور مجرمانہ فعل تھا۔ ان تمام حقائق کو تسلیم کرنے کے باوجود سپریم کورٹ نے غیرمنصفانہ فیصلہ دیا اور مسجد کی زمین ان لوگوں کے حوالے کردی جنہوں نے مجرمانہ طریقہ سے وہاں مورتیاں رکھیں اور مسجد کو شہید کردیا۔
بورڈ کے جنرل سکریٹری نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلہ کو تسلیم کرنے کے علاوہ ہمارے پاس اور کوئی چارہ نہیں ہے لیکن ہم یہ ضرور کہیں گے کہ یہ ایک ظالمانہ اور غیرمنصفانہ فیصلہ ہے جو اکثریت کے زعم میں دیا گیا ہے۔
بورڈ کے بیان میں کہا گیا کہ ہندوتوا عناصر کی تحریک جبر، ظلم، دھونس، دھاندلی، جھوٹ اور افترا پر مبنی تھی۔ یہ سراسر ایک سیاسی تحریک تھی جس کا مذہب یا مذہبی تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
مولانا ولی رحمانی نے مزید کہا کہ حالات چاہے جتنے خراب ہوں حوصلہ نہیں ہارنا چاہئے اور اللہ پر بھروسہ رکھنا چاہئے، مخالف حالات میں جینے کا مزاج بنانا چاہئے اور حالات ہمیشہ یکساں نہیں رہتے۔
انہوں نے مسلمانوں سے مایوس نہ ہونے کی اپیل کی اور کہا کہ کافی وقت کےلیے بیت اللہ شریف میں بھی بتوں کی پوجا ہوتی تھی۔ انہوں نے ترکی کی مسجد آیا صوفیہ کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ حالات کتنے ہی خراب کیوں نہ ہوں ہمیں مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔