ETV Bharat / bharat

'بابری مسجد مقدمہ کا فیصلہ 16 نومبر تک آنے کی امید'

مسلم پرسنل لاء بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا ولی رحمانی نے امید جتائی ہے کہ بابری مسجد معاملہ سپریم کورٹ میں آخری مرحلہ میں ہے اور روزانہ سماعت کی وجہ سے 16 نومبر تک فیصلہ آجانے کی امید ہے۔

مولانا ولی رحمانی
author img

By

Published : Aug 31, 2019, 11:14 PM IST

Updated : Sep 29, 2019, 12:33 AM IST

مولانا ولی رحمانی نے کہا کہ بابری مسجد کا معاملہ بلاشبہ ملک کی تاریخ میں اپنی نوعیت کا ایک منفرد واقعہ ہے جس کے مقدمہ کی عمر طویل ہونے کے ساتھ ساتھ بھارت جیسے جمہوری اور سیکولر ملک کا امتحان بھی ہے۔

انہوں نے کہا کہ بابری مسجد سنہ 1528 سے 22 دسمبر سنہ 1949 تک پورے طور پر مسجد رہی اور اس میں پنج وقتہ نماز پابندی سے ہوتی رہی۔

مولانا ولی رحمانی نے دعویٰ کیا کہ اس قضیہ کی ابتداء فرقہ پرست طاقتوں نے باقاعدہ 22 دسمبر سنہ 1949 کی رات کے اندھیرے میں بھگوان رام اور لکشمن کی مورتیاں رکھ کر کی اور پہلی مرتبہ سنہ 1949 میں ملک کو معلوم ہوا کہ بھگوان رام، مسجد کے گنبد کے نیچے کی جگہ پر پیدا ہوئے تھے۔

اس کے بعد عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹائے گئے لیکن افسوس کہ عدالتوں سے جمہوری تقاضوں کی تکمیل نا ہوسکی، سنی وقف بورڈ اترپردیش نے بھی سنہ 1961 میں عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا مگر کچھ حاصل نہیں ہوا اور جو مسلمان پنج وقتہ نماز ادا کرتا تھا اسکے داخلہ پر پابندی لگادی گئی۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ میں بابری مسجد کے متعلق جو پیروی ہورہی ہے وہ قابل اطمینان ہے اور ججز کی طرف سے جو مختلف تبصرے سامنے آرہے ہیں وہ بھی مناسب ہیں۔

مولانا ولی رھمانی نے کہا کہ بابری مسجد کی شہادت کے بعد مسلم پرسنل لاء بورڈ نے ملکیت و حقیت کے مقدمات کے ساتھ لبرہن کمیشن میں بھی زوردار پیروی کی اور آج بھی حقیت کا مقدمہ جو رائے بریلی کی عدالت میں زیر سماعت ہے۔

مسلم پرسنل لاء بورڈ ماہرین قانون داں کی نگرانی میں اس کی پیروی کررہا ہے، اس کے علاوہ بورڈ آثار قدیمہ کی جانب سے کھدائی کے دوران بھی شامل و شریک رہا۔

مولانا رحمانی نے مزید بتایا کہ الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بینچ کے ملکیت مقدمہ کے فیصلے نے پوری ملت اسلامیہ ہند اور ملک کے سیکولر غیر مسلموں کو بھی جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔

آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے بڑی ذمہ داری کے ساتھ اس فیصلہ کی جانچ کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی اور اس کمیٹی کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ ملک کے ممتاز سینیئر وکلاء کو منتخب کریں اور وکلاء کی پوری ٹیم بنائیں جو اس فیصلہ کے ہر پہلو سے جائزہ لے۔

انہوں نے کہا کہ وکلاء کی یہ ٹیم پوری طرح سرگرم ہے اور اپنا کام کررہی ہے، مسلم پرسنل لاء بورڈ نے سات فریقوں کی طرف سے سپریم کورٹ میں جواب داخل کیا ابھی جمعیت علماء ہند ایک مقدمے کی پیروی کررہی ہے اور مسلم پرسنل لاء بورڈ سپریم کورٹ میں سات مقدموں کی پیروی کررہا ہے اور مستقل وکلاء کے ساتھ تبادلہ خیال جاری ہے جبکہ مسلم پرسنل لاء بورڈ ان سات مقدمات کی پیروی کے اخراجات برداشت کررہا ہے۔

مولانا رحمانی نے اس سلسلہ میں تمام مسلمانوں سے اپیل کی ہے کہ جوں جوں وقت قریب آئے گا افواہوں کا بازار گرم رہے ہوگا وہ ان افواہوں پر قطعی دھیان نہ دیں۔

مسلم پرسنل لاء بورڈ اپنے موقف پر پوری قوت کے ساتھ قائم ہے اور قانونی چارہ جوئی کے لیے ہر ممکن کوشش کررہا ہے، تمام لوگ اس کے حق میں دعاؤں کا اہتمام کریں اور ملک میں اس وقت جس طرح کی سازشیں رچی جارہی ہیں ان سے ہوشیار اور چوکنا رہیں۔

مولانا ولی رحمانی نے کہا کہ بابری مسجد کا معاملہ بلاشبہ ملک کی تاریخ میں اپنی نوعیت کا ایک منفرد واقعہ ہے جس کے مقدمہ کی عمر طویل ہونے کے ساتھ ساتھ بھارت جیسے جمہوری اور سیکولر ملک کا امتحان بھی ہے۔

انہوں نے کہا کہ بابری مسجد سنہ 1528 سے 22 دسمبر سنہ 1949 تک پورے طور پر مسجد رہی اور اس میں پنج وقتہ نماز پابندی سے ہوتی رہی۔

مولانا ولی رحمانی نے دعویٰ کیا کہ اس قضیہ کی ابتداء فرقہ پرست طاقتوں نے باقاعدہ 22 دسمبر سنہ 1949 کی رات کے اندھیرے میں بھگوان رام اور لکشمن کی مورتیاں رکھ کر کی اور پہلی مرتبہ سنہ 1949 میں ملک کو معلوم ہوا کہ بھگوان رام، مسجد کے گنبد کے نیچے کی جگہ پر پیدا ہوئے تھے۔

اس کے بعد عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹائے گئے لیکن افسوس کہ عدالتوں سے جمہوری تقاضوں کی تکمیل نا ہوسکی، سنی وقف بورڈ اترپردیش نے بھی سنہ 1961 میں عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا مگر کچھ حاصل نہیں ہوا اور جو مسلمان پنج وقتہ نماز ادا کرتا تھا اسکے داخلہ پر پابندی لگادی گئی۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ میں بابری مسجد کے متعلق جو پیروی ہورہی ہے وہ قابل اطمینان ہے اور ججز کی طرف سے جو مختلف تبصرے سامنے آرہے ہیں وہ بھی مناسب ہیں۔

مولانا ولی رھمانی نے کہا کہ بابری مسجد کی شہادت کے بعد مسلم پرسنل لاء بورڈ نے ملکیت و حقیت کے مقدمات کے ساتھ لبرہن کمیشن میں بھی زوردار پیروی کی اور آج بھی حقیت کا مقدمہ جو رائے بریلی کی عدالت میں زیر سماعت ہے۔

مسلم پرسنل لاء بورڈ ماہرین قانون داں کی نگرانی میں اس کی پیروی کررہا ہے، اس کے علاوہ بورڈ آثار قدیمہ کی جانب سے کھدائی کے دوران بھی شامل و شریک رہا۔

مولانا رحمانی نے مزید بتایا کہ الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بینچ کے ملکیت مقدمہ کے فیصلے نے پوری ملت اسلامیہ ہند اور ملک کے سیکولر غیر مسلموں کو بھی جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔

آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے بڑی ذمہ داری کے ساتھ اس فیصلہ کی جانچ کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی اور اس کمیٹی کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ ملک کے ممتاز سینیئر وکلاء کو منتخب کریں اور وکلاء کی پوری ٹیم بنائیں جو اس فیصلہ کے ہر پہلو سے جائزہ لے۔

انہوں نے کہا کہ وکلاء کی یہ ٹیم پوری طرح سرگرم ہے اور اپنا کام کررہی ہے، مسلم پرسنل لاء بورڈ نے سات فریقوں کی طرف سے سپریم کورٹ میں جواب داخل کیا ابھی جمعیت علماء ہند ایک مقدمے کی پیروی کررہی ہے اور مسلم پرسنل لاء بورڈ سپریم کورٹ میں سات مقدموں کی پیروی کررہا ہے اور مستقل وکلاء کے ساتھ تبادلہ خیال جاری ہے جبکہ مسلم پرسنل لاء بورڈ ان سات مقدمات کی پیروی کے اخراجات برداشت کررہا ہے۔

مولانا رحمانی نے اس سلسلہ میں تمام مسلمانوں سے اپیل کی ہے کہ جوں جوں وقت قریب آئے گا افواہوں کا بازار گرم رہے ہوگا وہ ان افواہوں پر قطعی دھیان نہ دیں۔

مسلم پرسنل لاء بورڈ اپنے موقف پر پوری قوت کے ساتھ قائم ہے اور قانونی چارہ جوئی کے لیے ہر ممکن کوشش کررہا ہے، تمام لوگ اس کے حق میں دعاؤں کا اہتمام کریں اور ملک میں اس وقت جس طرح کی سازشیں رچی جارہی ہیں ان سے ہوشیار اور چوکنا رہیں۔

Intro:Body:Conclusion:
Last Updated : Sep 29, 2019, 12:33 AM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.