نرموہی اکھاڑہ کی مانگ ہے کہ ثالثی پینل میں عدالت عظمی کے دو مزید سبکدوش ججوں کو شامل کیا جائے تاکہ ثالثی غیرجانبدارانہ طور پر ہوسکے۔
عرضی گزار نے ثالی فیض آباد کے بجائے دہلی میں کیے جانے کی درخواست بھی کی ہے۔
نرموہی اکھاڑہ نے اپنی عرضی میں کہا ہے کہ ثالثی کے لیے اتنے فریقین کو مدعو کیے جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس معاملہ کو اکھاڑہ اور سنی وقف بورڈ کے مابین ہی بات چیت کے ذریعہ حل کیا جاسکتا ہے۔
عرضی گزار کا دعوی ہے کہ وہ رام للا اور ہندوٌں کے جذبات کے تعلق سے سنی وقف بورڈ سے بات چیت کرنے کے قابل ہیں۔
اس سے پہلے 8 مارچ کو اس تنازعہ کو عدالت عظمی نے ثالثی کے لیے بھیج دیا تھا۔ چیف جسٹس رنجن گگوئی، جج ایس کے بوبڈے، جج ڈی وائی چندرچوڑ ، جج اشوک بھوشن اور جج ایس عبدالنظیر کی آئینی بنچ نے فیصلہ سناتے ہوئے عدالت عظمی کے سابق جج ایف ایم آئی خلیف اللہ کی صدارت میں ہندو مذہبی پیشوا شری شری روی شنکر، وکیل شری رام پنچو پر مشتمل کمیٹی قائم کی تھی۔