ETV Bharat / bharat

ایودھیا کیس: سپریم کورٹ میں سماعت کا آج چھٹا روز

author img

By

Published : Aug 14, 2019, 10:46 AM IST

Updated : Sep 26, 2019, 11:11 PM IST

گزشتہ روز رام للا وراجمان کی طرف سے پیش ہوتے ہوئے سینیئر وکیل کے پراسنن نے عدالت میں کہا تھا کہ صرف انھیں نکات پر بحث کی جا سکتی ہے، جو عرضداشت میں درج ہو، اس کے علاوہ نئی نکات پر بحث کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

Ayodhya land case in sumreme court

بابری مسجد۔رام جنم بھومی کیس کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر چھ اگست سے سپریم کورٹ میں جاری ہے۔

سپریم کورٹ میں روزانہ کی بنیاد پر آج چھٹے روز بابری مسجد۔رام جنم بھومی کیس سماعت ہو گی۔

آج بھی سپریم کورٹ میں ہندو فریق رام للا وراجمان کی طرف سے بحث کا آغاز کیا جائے گا۔

گزشتہ روز رام للا رواجمان کی طرف سے پیش ہوتے ہوئے سینئر وکیل کے پراسنن نے عدالت میں کہا تھا کہ صرف انھیں نکات پر بحث کی جا سکتی ہے، جو عرضداشت میں درج ہو، اس سے علاوہ نئے نکات پر بحث کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

اس سے بعد رام للا کی جانب سے سنیئر وکیل سی ایس ودیاناتھن نے بحث شروع کی تھی اور عدالت کو بتایا تھا کہ یہ ضرورت نہیں ہے کہ کسی جگہ بت ہو، بلکہ ضروری یہ ہے کہ اس مذہب کے ماننے والے کا یقین ہو کہ وہاں رام کی پیدائش ہوئی تھی اور وہ وہیں موجود ہے۔

گزشتہ روز ایڈووکیت ودیاناتھن نے آئینی بنچ کو ہندو مذہب میں مورتی کی اہمیت اور اس کو لے کر ہندو مذہب کے پیروکاروں کے خدمات اور عقائد کو تفصیل سے بتایا ہے۔

دوران بحث مسلم فریق کے وکیل راجیو دھون نے عدالت کو بتایا کہ ہندو فریقین کی جانب سے سوٹ نمبر 1 داخل کی تھی، لیکن عدالت صرف سوٹ 3 اور سوٹ 5 پر سماعت کر رہی ہے، اس لیے عدالت سوٹ 1 پر بھی سماعت کرے، تاکہ وہ سب کا جواب دے سکے۔

اس سے قبل سماعت کے دوران رام للا وراج مان کے سینیئر وکیل کے پراسرن نے عدالت میں کہا تھا کہ 'جنم استھان' کی مستقل جگہ نہیں ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ آس پاس کے علاقوں سے بھی ہوسکتی ہے۔

انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ پورا علاقہ رام کے پیدائشی مقام سے ہے۔ اس کے تعلق سے کوئی تنازع نہیں کہ یہ جنم پیدائشی مقام رام کا ہے۔ ہندو اور مسلم دونوں فریق اس متنازع علاقے کو پیدائشی مقام کہتے ہیں۔
اس پر آئینی بنچ نے پوچھا تھا کہ کیا کسی پیدائشی مقام کو ایک قانونی شخصیت مانا جاسکتا ہے؟ مورتی ایک قانونی شخصیت ہوسکتی ہے، لیکن کیا ایک جگہ یا پیدائشی مقام قانونی شخصیت ہوسکتی ہے؟اس کے جواب میں مسٹر پراسرن نے کہا کہ ’رام للا وراجمان‘ اور’نرموہی اکھاڑہ‘کی طرف سے دائر دو الگ الگ سوٹ ایک دوسرے کے خلاف ہیں اور اگر ایک جیتتا ہے تو دوسرا خود بخود ہی ختم ہوجاتا ہے۔

جبکہ 6 اگست کو سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے نرموہی اکھاڑا سے ان کے دعوے کے ثبوت کے لیے دستاویز کا مطالبہ کیا تھا۔

سپریم کورٹ نے نرموہی اکھاڑا سے کہا تھا کہ رام جنم بھومی کے قبضے کا کوئی ریکارڈ یا دستاویزی ثبوت ہے؟

اس پر نرموہی اکھاڑا نے کہا تھا کہ سنہ 1982 میں ہونے والے ایک ڈکیٹی کے حادثے میں سارے دستاویزات چوری ہو گئے۔

دراصل بابری مسجد۔رام جنم بھومی تنازع کیس پر مصالحتی کمیٹی کی ناکامی کے بعد سپریم کورٹ نے اس کیس کی روزانہ کی بنیاد پر سماعت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

اس سے قبل چیف جسٹس آف انڈیا رنجن گوگوئی کی قیادت والی پانچ رکن بنچ نے سپریم کورٹ کے سابق جج ایف ایم آئی خلیف اللہ کی قیادت میں تشکیل دی گئی ثالثی کمیٹی کی رپورٹ کا نوٹس لیتے ہوئے کہا تھا کہ اس تنازعہ کا مناسب حل تلاش کرنے کی کوشش ناکام ہو گئی ہے۔

ثالثی پینل کی جانب سے جمع کروائی گئی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ہندو اور مسلمان جماعتیں تنازع کا حل ڈھونڈنے میں کامیاب نہیں ہوسکیں۔

یکم اگست کو ایودھیا رام جنم - بھومی بابری مسجد، اراضی تنازعہ کو حل کرنے کے لیے عدالت عظمی کی مقرر کردہ ثالثی کمیٹی نے عدالت عظمیٰ میں پیش رفت رپورٹ پیش کی تھی۔

ایودھیا کیس کی سماعت چیف جسٹس رنجن گگوئی، جسٹس ایس اے بوبڈے، جسٹس ڈی وائی چندچوڑ ، جسٹس اشوک بھوشن اور جسٹس ایس عبدالنظیر کی آئینی بینچ کر رہی ہے۔

بابری مسجد۔رام جنم بھومی کیس کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر چھ اگست سے سپریم کورٹ میں جاری ہے۔

سپریم کورٹ میں روزانہ کی بنیاد پر آج چھٹے روز بابری مسجد۔رام جنم بھومی کیس سماعت ہو گی۔

آج بھی سپریم کورٹ میں ہندو فریق رام للا وراجمان کی طرف سے بحث کا آغاز کیا جائے گا۔

گزشتہ روز رام للا رواجمان کی طرف سے پیش ہوتے ہوئے سینئر وکیل کے پراسنن نے عدالت میں کہا تھا کہ صرف انھیں نکات پر بحث کی جا سکتی ہے، جو عرضداشت میں درج ہو، اس سے علاوہ نئے نکات پر بحث کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

اس سے بعد رام للا کی جانب سے سنیئر وکیل سی ایس ودیاناتھن نے بحث شروع کی تھی اور عدالت کو بتایا تھا کہ یہ ضرورت نہیں ہے کہ کسی جگہ بت ہو، بلکہ ضروری یہ ہے کہ اس مذہب کے ماننے والے کا یقین ہو کہ وہاں رام کی پیدائش ہوئی تھی اور وہ وہیں موجود ہے۔

گزشتہ روز ایڈووکیت ودیاناتھن نے آئینی بنچ کو ہندو مذہب میں مورتی کی اہمیت اور اس کو لے کر ہندو مذہب کے پیروکاروں کے خدمات اور عقائد کو تفصیل سے بتایا ہے۔

دوران بحث مسلم فریق کے وکیل راجیو دھون نے عدالت کو بتایا کہ ہندو فریقین کی جانب سے سوٹ نمبر 1 داخل کی تھی، لیکن عدالت صرف سوٹ 3 اور سوٹ 5 پر سماعت کر رہی ہے، اس لیے عدالت سوٹ 1 پر بھی سماعت کرے، تاکہ وہ سب کا جواب دے سکے۔

اس سے قبل سماعت کے دوران رام للا وراج مان کے سینیئر وکیل کے پراسرن نے عدالت میں کہا تھا کہ 'جنم استھان' کی مستقل جگہ نہیں ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ آس پاس کے علاقوں سے بھی ہوسکتی ہے۔

انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ پورا علاقہ رام کے پیدائشی مقام سے ہے۔ اس کے تعلق سے کوئی تنازع نہیں کہ یہ جنم پیدائشی مقام رام کا ہے۔ ہندو اور مسلم دونوں فریق اس متنازع علاقے کو پیدائشی مقام کہتے ہیں۔
اس پر آئینی بنچ نے پوچھا تھا کہ کیا کسی پیدائشی مقام کو ایک قانونی شخصیت مانا جاسکتا ہے؟ مورتی ایک قانونی شخصیت ہوسکتی ہے، لیکن کیا ایک جگہ یا پیدائشی مقام قانونی شخصیت ہوسکتی ہے؟اس کے جواب میں مسٹر پراسرن نے کہا کہ ’رام للا وراجمان‘ اور’نرموہی اکھاڑہ‘کی طرف سے دائر دو الگ الگ سوٹ ایک دوسرے کے خلاف ہیں اور اگر ایک جیتتا ہے تو دوسرا خود بخود ہی ختم ہوجاتا ہے۔

جبکہ 6 اگست کو سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے نرموہی اکھاڑا سے ان کے دعوے کے ثبوت کے لیے دستاویز کا مطالبہ کیا تھا۔

سپریم کورٹ نے نرموہی اکھاڑا سے کہا تھا کہ رام جنم بھومی کے قبضے کا کوئی ریکارڈ یا دستاویزی ثبوت ہے؟

اس پر نرموہی اکھاڑا نے کہا تھا کہ سنہ 1982 میں ہونے والے ایک ڈکیٹی کے حادثے میں سارے دستاویزات چوری ہو گئے۔

دراصل بابری مسجد۔رام جنم بھومی تنازع کیس پر مصالحتی کمیٹی کی ناکامی کے بعد سپریم کورٹ نے اس کیس کی روزانہ کی بنیاد پر سماعت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

اس سے قبل چیف جسٹس آف انڈیا رنجن گوگوئی کی قیادت والی پانچ رکن بنچ نے سپریم کورٹ کے سابق جج ایف ایم آئی خلیف اللہ کی قیادت میں تشکیل دی گئی ثالثی کمیٹی کی رپورٹ کا نوٹس لیتے ہوئے کہا تھا کہ اس تنازعہ کا مناسب حل تلاش کرنے کی کوشش ناکام ہو گئی ہے۔

ثالثی پینل کی جانب سے جمع کروائی گئی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ہندو اور مسلمان جماعتیں تنازع کا حل ڈھونڈنے میں کامیاب نہیں ہوسکیں۔

یکم اگست کو ایودھیا رام جنم - بھومی بابری مسجد، اراضی تنازعہ کو حل کرنے کے لیے عدالت عظمی کی مقرر کردہ ثالثی کمیٹی نے عدالت عظمیٰ میں پیش رفت رپورٹ پیش کی تھی۔

ایودھیا کیس کی سماعت چیف جسٹس رنجن گگوئی، جسٹس ایس اے بوبڈے، جسٹس ڈی وائی چندچوڑ ، جسٹس اشوک بھوشن اور جسٹس ایس عبدالنظیر کی آئینی بینچ کر رہی ہے۔

Intro:Body:Conclusion:
Last Updated : Sep 26, 2019, 11:11 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.