ETV Bharat / bharat

عالمی یومِ ارض: نیا طرز حیات اور سوادیشی نظامِ معیشت اپنانے کی ضرورت

author img

By

Published : Apr 22, 2020, 5:16 PM IST

نیشنل سیڈ ایسوسی ایشن آف انڈیا کے ڈائریکٹر اندرا شیکھر سنگھ نے عالمی یوم ارض کے موقع پر کہا کہ پوری دنیا میں کورونا وائرس کی وجہ سے لاک ڈاؤن جاری ہے اور اس لاک ڈاؤن کی وجہ سے ماحولیات پر کافی مثبت اثرات دیکھنے کو ملے ہیں۔اس صورتحال کے تناظر میں ہمارے ذہن میں یہ سوال اٹھتے ہیں کہ کیا ہم اس کرہ ارض کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہوئے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں مہاتما گاندھی کی جانب سے تجویز کی گئی سودیشی معیشت کو اپنا سکتے ہیں اور اس ماحول کو بچانے میں ہم سب اپنا ایک اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔

عالمی یومِ ارض
عالمی یومِ ارض

عالمی یوم ارض سنہ 1970 سے منایا جارہا ہے۔ لیکن اس وقت جاری لاک ڈاون کی بدولت، امسال یوم ارض پر یعنی 22 اپریل 2020 کو پہلی بار ایسا ہوگا کہ بھارت کے ساتھ ساتھ پوری دُنیا میں زمین ترو تازہ ہے۔

ماہر ارضیات جان میک کونل، جن کی وجہ سے دنیا بھر میں یہ دن منانے کی شروعات ہوئی تھی، جنت سے یہ منظر دیکھ کر مسکرا رہے ہوں گے۔ کیونکہ آج نہ ہی بادلوں میں مہلک جزیات شامل ہیں اور نہ ہی آلودگی کا کہیں نام و نشان دیکھنے کو مل رہا ہے۔ آکیسجن کی مقدار میں اضافہ ہوگیا ہے۔ اس کی وجہ سے حشرات الارض جوش و خروش میں ہیں۔

اس خوش کن صورتحال کے تناظر میں ہم آج خود سے کئی سوالات پوچھ سکتے ہیں۔ کیا ہم اس کرہ ارض کو تحفظ فراہم کرسکتے ہیں؟ کیا معاشی ترقی کے ساتھ ساتھ پانی اور ہوا کو آلودگی سے بچائے رکھنا ممکن ہے؟ جب ہم احتساب کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ فطرت کے ساتھ کھلواڑ کرنے کے نتیجے میں ہم نے اس کرہ ارض پر تباہی مچادی ہے۔ آج انسانی زندگیوں کو جوہری جنگ سے بھی زیادہ خطرہ ماحولیات کی تباہی کی وجہ سے لاحق ہوگیا ہے۔ ماحولیات کی اس تباہی کے اثرات پوری دُنیا میں دیکھنے کو مل رہے ہیں۔

امریکی ماہرلسانیات، فلسفی اور مورخ نوم چومسکی نے حال ہی میں کہا کہ بھارت اور پاکستان سکڑتے ہوئے آبی ذخائر کی وجہ سے (مستقبل میں) نیو کلیئر جنگ کرسکتے ہیں۔ اس تباہی کے آثار نمودار ہونے لگے ہیں۔ یہ کرہ ارض اب مزید تباہی برداشت کرنے کا متحمل نہیں ہوسکتا ہے۔ وبا اور بیماریاں ہمارے لئے قدرت کی طرف سے کچھ عندیے دے رہی ہے۔ قدرت ہمیں سمجھا رہی ہے کہ ہمیں ماحولیات کی تباہی کے منصوبوں سے باز آکر ایک نئی معیشت کو قائم کرنا ہوگا اور ایک نئی دنیا تعمیر کرنی ہوگی۔ ہم یہ نئی دُنیا کیسے بنا سکتے ہیں؟ کیا ہم اس مادی دُنیا ترک کریں؟ کیا ہم اپنی ذمہ داریوں سے دامن چھڑا لیں؟ کیا ہم ٹیکنالوجی کو ترک کر کے جنگل باسی بن جائیں؟ نہیں ایسا کچھ نہیں کرنا ہے۔ کورونا وائرس ایک جان لیوا آفت ہے لیکن یہ آفت بھی ہمیں اندھا دھند چیزوں کی کھپت کرنے سے باز آجانے کا موقعہ فراہم کررہی ہے۔ یہ آفت ہمیں نئی عادات سکھا رہی ہے۔ ان نئے عادات کی بدولت ہماری ہوا آلودگی سے پاک ہوسکتی ہے اور ہمارا پانی شفاف ہوسکتا ہے۔ اس کے نتیجے میں ہمارے شہروں میں چڑیوں کی چچہاہٹ پھر سے سنائی دینے لگے گی۔

موسمیاتی تغیر کی تباہی سے بچنے کے لئے ہمیں پانچ اصولوں کو اپنانا ہوگا۔ ہمیں اپنی زندگیوں اور معیشت کی تعمیر نو کے لئے چیزوں کی کھپت کو کم کرنا ہوگا۔ہمیں چیزوں کو دوبارہ استعمال کرنا سیکھنا ہوگا۔ہمیں معیشت میں ایک نئی جان ڈالنی ہوگی۔ہمیں سوادیشی نظام کو اپنانا ہوگا اور ہمیں ایگرو اکولوجی کو اپنانا ہوگا۔

ہمیں بھارت اور باقی دنیا کی تعمیر نو کےلئے ایک مضبوط گرین اکونامی ( آلودگی سے پاک، قابل تجدید وسائل کا استعمال کرنے) کی ضرورت ہے۔ گزشتہ صدی کا بیشتر حصہ ٹیکنالوجی کی وجہ سے کرہ ارض کی تباہی میں گزر گیا ہے۔ اب ہمیں دونوں کو یعنی ٹیکنالوجی اور کرہ ارض کو ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں صنعتی انقلاب کو از سر نو غیر آلودگی اور قابل تجدید ٹیکنالوجی کی بنیادوں پر بپا کرنا ہوگا۔ لیکن اس کی شروعات کہاں سے کی جاسکتی ہے؟ اس کی شروعات کرنے کے لئے سب سے پہلے ہمیں کرہ ارض کے بارے میں جانکاری حاصل کرنی ہوگی۔ یہ کرہ ارض زندہ ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ یہاں صرف آلودگی ہے اور یہاں صرف جنگلات و آبی ذخائز ختم ہورہے ہیں۔ یہ زمین ابھی زندہ ہے اور ہمیں اس کے ساتھ جڑنا ہوگا۔ ہمیں اس زمین، اس کے پہاڑوں اور دیگر وسائل کو تحفظ فراہم کرنا ہوگا۔ یہ زمین اور اسکے وسائل زندہ ہیں لیکن ہمیں ان کی قدر کرنی ہوگی۔ جب اس معاملے میں ہمارا ضمیر زندہ ہوجائے گا۔ تو اس کے بعد دوسرا مرحلہ یہ ہوگا کہ ہم اپنی زمین پر دباؤ کو کم کرنے کے لئے اقدامات شروع کریں۔

ہماری ہر حرکت اور ہماری ہر چیز کے اثرات زمین پر مرتب ہورہے ہیں۔ ہماری تمام تر ترقی کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ ماحولیاتی تباہی عروج پر ہے۔ آبی ذخائر، ایندھن اور بجلی کا کم استعمال کرنا نہ صرف ایک دانشمندانہ اقدام ہوسکتا ہے بلکہ اس کے نتیجے میں ہماری بچت بھی ہوگی۔ ہمیں چیزوں کی کھپت کو کم کرنا ہوگا اور ایندھن پر منحصر معیشت کو محدود کرنا ہوگا۔ ہمیں متبادل معشیت کو تلاش کرنا ہوگا۔ اس زمین کے محدود وسائل ہیں اور ان وسائل کا غیر ضروری استعمال اور انہیں لوٹنے کے عمل روکنا ہوگا۔ برعکس صورت میں اس کا خمیازہ ہماری آنے والی نسلوں کو بھی بھگتنا پڑے گا۔ ہمیں اُن چیزوں کو خریدنا بند کرنا ہوگا، جن کی وجہ سے انسانوں پر اور اس کرہ ارض پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ یار دکھیں، جب بھی آپ کوئی شئے خریدنے لگیں، تو پہلے سوچیں کہ کیا واقعی آپ کو اس چیز کی ضرورت ہے؟ اور یہ کہ کیا کہیں یہ شئے زمین کے لئے نقصان دہ تو نہیں ہے؟

کھپت کو کم کرنے کا ایک آسان طریقہ یہ ہوسکتا ہے کہ ہم چیزوں کو دوبارہ استعمال کرنا سیکھیں۔ چیزوں کے دوبارہ استعمال کے حوالے سے بھارت میں کئی نرالے طریقوں کو اپنایا جاسکتا ہے۔ ہم کچن سے برآمد ہونے والے کھانے پینے کی بچی کھچی اشیا کو پھینکنے کے بجائے ان کے ذریعے زمین کو زرخیز بنا سکتے ہیں۔ ہم فضلہ، جس میں یوریا کی کافی مقدار ہوتی ہے، سے شہری باغیچوں کو زرخیز بنا سکتے ہیں۔ چیزیں ضائع کرنے سے احتراز کرنا چاہیے۔ اسلئے کوئی بھی چیز پھینکنے سے پہلے ایک منٹ کے لئے رُک جائیں اور سوچیں کہ کہیں ہم اس کا کوئی اور استعمال تو نہیں کرسکتے ہیں۔

اگر ہم دو منفی باتوں کو ترک کریں گے تو اس کے نتیجے میں ماحولیات کے حق میں کم از کم ایک مثبت بات دیکھنے کو مل سکتی ہے۔ انسان اس دنیا کے مالک نہیں ہیں۔ بلکہ بقول ایک معروف امریکی ماہرِ ماحولیات الڈو لیوپاڈ انسان محض اس دنیا میں ’زمین کے نگران‘ ہیں۔ ہمیں یہ زمین اپنے آبا و اجداد کی وساطت سے ملی ہے اور ہمیں اسے اپنی آنے والی نسلوں کو دیکر جانا ہے۔ہمارا کام یہاں لوٹ کھسوٹ کرنا نہیں ہے اور نہ ہی ہمیں اپنی عیاشیوں کے لئے اس زمین اور اسکے آبی ذخائر کو آلودہ کرنا ہے۔ ہمیں اس زمین میں نئی جان ڈالنے کےلئے نئے اصول اپنانے ہوں گے، جس میں ایندھن کا کم سے کم استعمال ہو اور کاربن کا کم اخراج ہو۔ اس ضمن میں ہمیں اپنے طرز زندگی میں تبدیلیاں لانی ہوں گی۔ آپ ایک فرد کی حیثیت سے اپنی حرکتوں پر غور کریں۔ آپ اپنے حرکتوں کو الگ تھلگ نہ سمجھیں بلکہ آپ پوری دُنیا کا ایک حصہ ہیں اور آپ کی حرکتوں کے اثرات پوری دُنیا پر مرتب ہورہے ہیں۔ اس دُنیا کو بہتر بنانے میں اپنا تعاون دیں۔

مہاتما گاندھی نے اب سے سو سال پہلے ہمیں ایک حل بتا دیا ہے۔ انہوں نے ہمیں ’’سوادیشی‘‘ معشیت کا تصور دیا ہے۔ یہ ایک ایسا نظام ہے، جو خود انحصاری، قدر ومنزلت اور باہمی اشتراک پر منحصر ہے۔ اس کی وجہ سے ہمارے ماحولیات پر منفی اثرات مرتب نہیں ہونگے۔ انہوں نے ہر گاؤں کو خود انحصار بنانے کے منصوبے پر غور کیا اور پھر اس منصوبے کے خدوخال پر وسیع پیمانے پر لکھا بھی۔ انہوں نے کہا، ’’ ایسا کرنے ( ہر گائوں کو خود انحصار بنانے ) سے ہر گاوں ضرورت پڑنے پر پوری دنیا کے مقابلے میں خود کو تحفظ فراہم کرسکتا ہے۔ یہ نظام دراصل پیداوار کو غیر مرتکز کرنے کا نظام ہے۔ اس معاشی نظام میں ہر گاؤں وافر مقدار میں اشیا پیدا کرے گا اور اس کے بعد اضافی پیداوار کو دوسروں کے ساتھ بانٹنے گا اور اس کے بدلے میں وہ چیزیں حاصل کرے گا، جو وہ خود پیدا نہیں کرپا تا ہے۔

وقت آگیا ہے کہ ہم ماحولیات دوست ٹیکنالوجی کے استعمال کے ساتھ ’سوادیشی‘ نظام کو اپنائیں۔ یہ طریقہ کار کوئی منفی عمل نہیں ہے اور نہ ہی اس کا مطلب دوسروں کا بائیکاٹ کرنا یا دوسروں سے نفرت کرنا ہے۔ بلکہ یہ خود انحصاری کا ایک طریقہ کار ہے۔ ایک قوم کی حیثیت سے ہمیں ہر وہ چیز خود پیدا کرنی چاہیے،جو ہم کرسکتے ہیں۔ ادویات سے لیکر خوراک تک ہر چیز ہمیں اپنے آس پاس ہی پیدا کرنی چاہیے۔ ہمیں مقامی سطح پر چیزیں پیدا کرنےکا اختیار حاصل ہے۔ ہمیں سوادیشی نظام اور استحکام کی طرف راغب ہونا چاہیے۔ جب بھی ہمیں کوئی چیز خریدنی ہو تو ہمیں پہلے یہ سوچنا چاہیے کہ کیا ہم اس کے متبادل میں کوئی اور ایسی چیز استعمال کرسکتے ہیں، جسے مقامی طور پیدا کیا جاسکتا ہے؟

آخری مرحلے پر ہمیں ایگرو اکولوجی انڈسٹریل فوڈ سسٹم( یعنی ماحولیات دوست زرعی نظام) قائم کرنے کی طرف توجہ دینی ہوگی۔ مویشیوں اور پولٹری کے فارمز نے نہ صرف انسانی صحت کو تباہ کردیا ہے بلکہ ان کی وجہ سے زمین بھی مہلک ہوگئی ہے۔ موجودہ نظام کی وجہ سے دنیا میں کسانوں کی خود کشی، کینسر کے پھیلاؤ اور چھوٹے کسانوں کی حق تلفی اور اُن کا استحصال جیسی چیزیں دیکھنے کو مل رہی ہیں۔ مہلک اجزا کی ملاوٹ کی وجہ سے ہمارے دریا آلودہ ہوگئے ہیں۔ لوگ ناقص خوراک کی وجہ سے ذیابطیس اور کینسر جیسے امراض میں مبتلا ہورہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ کھاد کی سبسڈی کی وجہ سے ملک کے ٹیکس دہندگان کو بھاری نقصان سے دوچار ہونا پڑرہا ہے۔

انٹرنیشنل میز اینڈ وہیٹ امپرومنٹ سینٹر(CIMMYT) کے پرنسپل سائنٹسٹ ایم ایل جاٹ نے اپنی ایک حالیہ تحقیق میں ثابت کیا ہے کہ ایگرو اکولوجی کے استعمال سے نہ صرف ہم صحت مند غذا فراہم کرسکیں گے بلکہ ہماری خوراک میں کیمیکل اور دیگر نقصان دہ اجزا کی شمولیت کو بھی کم کیا جاسکتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اس ضمن میں ہم کہاں سے شروعات کرسکتے ہیں؟ ہمیں اپنے گھروں سے اس کی شروعات کرنی ہوگی۔ ہم سبزیاں اگا سکتے ہیں۔ ہم دھنیا جیسی چیزیں چھوٹے برتنوں میں اُگا سکتے ہیں۔ کوشش کریں کہ جو کچھ آپ کھاتے ہیں، اس میں سے کچھ نہ کچھ خود اُگائیں۔ اگر آپ خود ایسا نہیں کرسکتے ہیں تو کسانوں سے رابطہ کریں جو آپ کو یہ کام کرکے دے سکتے ہیں۔ ہم میں سے جو لوگ شہروں میں رہتے ہیں، وہ پھلواریاں قائم کرسکتے ہیں۔اس طرح سے ہم اپنے بچوں کو بھی سکھا سکتے ہیں کہ چیزیں کیسے اُگائی جاتی ہیں۔

ان تمام باتوں پر عمل کرکے ہم گرین اکونامی قائم کرسکتے ہیں، جس کے نتیجے میں ہماری زمین میں نئی جان پیدا ہوگئی اور ہمیں معاشی خود اختیاری حاصل ہوگی۔ اب جبکہ دُنیا اقتصادی بدحالی کا شکار ہوچکی ہے، بھارت کو از سر نو خود کو کھڑا کرنا ہوگا۔ ہمیں نئی عادات اپنانی ہوں گی۔ مہاتما گاندھی نے کہا ہے کہ سوادیشی نظامِ معیشت پہلے ہی ہمارے پاس ہے۔ آج اس یوم ارض پر ہمیں عزم کرنا ہوگا کہ ہم سائنسی بنیادوں پر از سر نو متحرک ہوجائیں گے اور اپنی زمین کو تحفظ فراہم کریں گے۔

اندرا شیکھر سنگھ

(مصنف پالیسی اینڈ آوٹ ریچ، نیشنل سیڈ ایسوسی ایشن آف انڈیا کے ڈائریکٹر ہیں)

عالمی یوم ارض سنہ 1970 سے منایا جارہا ہے۔ لیکن اس وقت جاری لاک ڈاون کی بدولت، امسال یوم ارض پر یعنی 22 اپریل 2020 کو پہلی بار ایسا ہوگا کہ بھارت کے ساتھ ساتھ پوری دُنیا میں زمین ترو تازہ ہے۔

ماہر ارضیات جان میک کونل، جن کی وجہ سے دنیا بھر میں یہ دن منانے کی شروعات ہوئی تھی، جنت سے یہ منظر دیکھ کر مسکرا رہے ہوں گے۔ کیونکہ آج نہ ہی بادلوں میں مہلک جزیات شامل ہیں اور نہ ہی آلودگی کا کہیں نام و نشان دیکھنے کو مل رہا ہے۔ آکیسجن کی مقدار میں اضافہ ہوگیا ہے۔ اس کی وجہ سے حشرات الارض جوش و خروش میں ہیں۔

اس خوش کن صورتحال کے تناظر میں ہم آج خود سے کئی سوالات پوچھ سکتے ہیں۔ کیا ہم اس کرہ ارض کو تحفظ فراہم کرسکتے ہیں؟ کیا معاشی ترقی کے ساتھ ساتھ پانی اور ہوا کو آلودگی سے بچائے رکھنا ممکن ہے؟ جب ہم احتساب کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ فطرت کے ساتھ کھلواڑ کرنے کے نتیجے میں ہم نے اس کرہ ارض پر تباہی مچادی ہے۔ آج انسانی زندگیوں کو جوہری جنگ سے بھی زیادہ خطرہ ماحولیات کی تباہی کی وجہ سے لاحق ہوگیا ہے۔ ماحولیات کی اس تباہی کے اثرات پوری دُنیا میں دیکھنے کو مل رہے ہیں۔

امریکی ماہرلسانیات، فلسفی اور مورخ نوم چومسکی نے حال ہی میں کہا کہ بھارت اور پاکستان سکڑتے ہوئے آبی ذخائر کی وجہ سے (مستقبل میں) نیو کلیئر جنگ کرسکتے ہیں۔ اس تباہی کے آثار نمودار ہونے لگے ہیں۔ یہ کرہ ارض اب مزید تباہی برداشت کرنے کا متحمل نہیں ہوسکتا ہے۔ وبا اور بیماریاں ہمارے لئے قدرت کی طرف سے کچھ عندیے دے رہی ہے۔ قدرت ہمیں سمجھا رہی ہے کہ ہمیں ماحولیات کی تباہی کے منصوبوں سے باز آکر ایک نئی معیشت کو قائم کرنا ہوگا اور ایک نئی دنیا تعمیر کرنی ہوگی۔ ہم یہ نئی دُنیا کیسے بنا سکتے ہیں؟ کیا ہم اس مادی دُنیا ترک کریں؟ کیا ہم اپنی ذمہ داریوں سے دامن چھڑا لیں؟ کیا ہم ٹیکنالوجی کو ترک کر کے جنگل باسی بن جائیں؟ نہیں ایسا کچھ نہیں کرنا ہے۔ کورونا وائرس ایک جان لیوا آفت ہے لیکن یہ آفت بھی ہمیں اندھا دھند چیزوں کی کھپت کرنے سے باز آجانے کا موقعہ فراہم کررہی ہے۔ یہ آفت ہمیں نئی عادات سکھا رہی ہے۔ ان نئے عادات کی بدولت ہماری ہوا آلودگی سے پاک ہوسکتی ہے اور ہمارا پانی شفاف ہوسکتا ہے۔ اس کے نتیجے میں ہمارے شہروں میں چڑیوں کی چچہاہٹ پھر سے سنائی دینے لگے گی۔

موسمیاتی تغیر کی تباہی سے بچنے کے لئے ہمیں پانچ اصولوں کو اپنانا ہوگا۔ ہمیں اپنی زندگیوں اور معیشت کی تعمیر نو کے لئے چیزوں کی کھپت کو کم کرنا ہوگا۔ہمیں چیزوں کو دوبارہ استعمال کرنا سیکھنا ہوگا۔ہمیں معیشت میں ایک نئی جان ڈالنی ہوگی۔ہمیں سوادیشی نظام کو اپنانا ہوگا اور ہمیں ایگرو اکولوجی کو اپنانا ہوگا۔

ہمیں بھارت اور باقی دنیا کی تعمیر نو کےلئے ایک مضبوط گرین اکونامی ( آلودگی سے پاک، قابل تجدید وسائل کا استعمال کرنے) کی ضرورت ہے۔ گزشتہ صدی کا بیشتر حصہ ٹیکنالوجی کی وجہ سے کرہ ارض کی تباہی میں گزر گیا ہے۔ اب ہمیں دونوں کو یعنی ٹیکنالوجی اور کرہ ارض کو ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں صنعتی انقلاب کو از سر نو غیر آلودگی اور قابل تجدید ٹیکنالوجی کی بنیادوں پر بپا کرنا ہوگا۔ لیکن اس کی شروعات کہاں سے کی جاسکتی ہے؟ اس کی شروعات کرنے کے لئے سب سے پہلے ہمیں کرہ ارض کے بارے میں جانکاری حاصل کرنی ہوگی۔ یہ کرہ ارض زندہ ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ یہاں صرف آلودگی ہے اور یہاں صرف جنگلات و آبی ذخائز ختم ہورہے ہیں۔ یہ زمین ابھی زندہ ہے اور ہمیں اس کے ساتھ جڑنا ہوگا۔ ہمیں اس زمین، اس کے پہاڑوں اور دیگر وسائل کو تحفظ فراہم کرنا ہوگا۔ یہ زمین اور اسکے وسائل زندہ ہیں لیکن ہمیں ان کی قدر کرنی ہوگی۔ جب اس معاملے میں ہمارا ضمیر زندہ ہوجائے گا۔ تو اس کے بعد دوسرا مرحلہ یہ ہوگا کہ ہم اپنی زمین پر دباؤ کو کم کرنے کے لئے اقدامات شروع کریں۔

ہماری ہر حرکت اور ہماری ہر چیز کے اثرات زمین پر مرتب ہورہے ہیں۔ ہماری تمام تر ترقی کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ ماحولیاتی تباہی عروج پر ہے۔ آبی ذخائر، ایندھن اور بجلی کا کم استعمال کرنا نہ صرف ایک دانشمندانہ اقدام ہوسکتا ہے بلکہ اس کے نتیجے میں ہماری بچت بھی ہوگی۔ ہمیں چیزوں کی کھپت کو کم کرنا ہوگا اور ایندھن پر منحصر معیشت کو محدود کرنا ہوگا۔ ہمیں متبادل معشیت کو تلاش کرنا ہوگا۔ اس زمین کے محدود وسائل ہیں اور ان وسائل کا غیر ضروری استعمال اور انہیں لوٹنے کے عمل روکنا ہوگا۔ برعکس صورت میں اس کا خمیازہ ہماری آنے والی نسلوں کو بھی بھگتنا پڑے گا۔ ہمیں اُن چیزوں کو خریدنا بند کرنا ہوگا، جن کی وجہ سے انسانوں پر اور اس کرہ ارض پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ یار دکھیں، جب بھی آپ کوئی شئے خریدنے لگیں، تو پہلے سوچیں کہ کیا واقعی آپ کو اس چیز کی ضرورت ہے؟ اور یہ کہ کیا کہیں یہ شئے زمین کے لئے نقصان دہ تو نہیں ہے؟

کھپت کو کم کرنے کا ایک آسان طریقہ یہ ہوسکتا ہے کہ ہم چیزوں کو دوبارہ استعمال کرنا سیکھیں۔ چیزوں کے دوبارہ استعمال کے حوالے سے بھارت میں کئی نرالے طریقوں کو اپنایا جاسکتا ہے۔ ہم کچن سے برآمد ہونے والے کھانے پینے کی بچی کھچی اشیا کو پھینکنے کے بجائے ان کے ذریعے زمین کو زرخیز بنا سکتے ہیں۔ ہم فضلہ، جس میں یوریا کی کافی مقدار ہوتی ہے، سے شہری باغیچوں کو زرخیز بنا سکتے ہیں۔ چیزیں ضائع کرنے سے احتراز کرنا چاہیے۔ اسلئے کوئی بھی چیز پھینکنے سے پہلے ایک منٹ کے لئے رُک جائیں اور سوچیں کہ کہیں ہم اس کا کوئی اور استعمال تو نہیں کرسکتے ہیں۔

اگر ہم دو منفی باتوں کو ترک کریں گے تو اس کے نتیجے میں ماحولیات کے حق میں کم از کم ایک مثبت بات دیکھنے کو مل سکتی ہے۔ انسان اس دنیا کے مالک نہیں ہیں۔ بلکہ بقول ایک معروف امریکی ماہرِ ماحولیات الڈو لیوپاڈ انسان محض اس دنیا میں ’زمین کے نگران‘ ہیں۔ ہمیں یہ زمین اپنے آبا و اجداد کی وساطت سے ملی ہے اور ہمیں اسے اپنی آنے والی نسلوں کو دیکر جانا ہے۔ہمارا کام یہاں لوٹ کھسوٹ کرنا نہیں ہے اور نہ ہی ہمیں اپنی عیاشیوں کے لئے اس زمین اور اسکے آبی ذخائر کو آلودہ کرنا ہے۔ ہمیں اس زمین میں نئی جان ڈالنے کےلئے نئے اصول اپنانے ہوں گے، جس میں ایندھن کا کم سے کم استعمال ہو اور کاربن کا کم اخراج ہو۔ اس ضمن میں ہمیں اپنے طرز زندگی میں تبدیلیاں لانی ہوں گی۔ آپ ایک فرد کی حیثیت سے اپنی حرکتوں پر غور کریں۔ آپ اپنے حرکتوں کو الگ تھلگ نہ سمجھیں بلکہ آپ پوری دُنیا کا ایک حصہ ہیں اور آپ کی حرکتوں کے اثرات پوری دُنیا پر مرتب ہورہے ہیں۔ اس دُنیا کو بہتر بنانے میں اپنا تعاون دیں۔

مہاتما گاندھی نے اب سے سو سال پہلے ہمیں ایک حل بتا دیا ہے۔ انہوں نے ہمیں ’’سوادیشی‘‘ معشیت کا تصور دیا ہے۔ یہ ایک ایسا نظام ہے، جو خود انحصاری، قدر ومنزلت اور باہمی اشتراک پر منحصر ہے۔ اس کی وجہ سے ہمارے ماحولیات پر منفی اثرات مرتب نہیں ہونگے۔ انہوں نے ہر گاؤں کو خود انحصار بنانے کے منصوبے پر غور کیا اور پھر اس منصوبے کے خدوخال پر وسیع پیمانے پر لکھا بھی۔ انہوں نے کہا، ’’ ایسا کرنے ( ہر گائوں کو خود انحصار بنانے ) سے ہر گاوں ضرورت پڑنے پر پوری دنیا کے مقابلے میں خود کو تحفظ فراہم کرسکتا ہے۔ یہ نظام دراصل پیداوار کو غیر مرتکز کرنے کا نظام ہے۔ اس معاشی نظام میں ہر گاؤں وافر مقدار میں اشیا پیدا کرے گا اور اس کے بعد اضافی پیداوار کو دوسروں کے ساتھ بانٹنے گا اور اس کے بدلے میں وہ چیزیں حاصل کرے گا، جو وہ خود پیدا نہیں کرپا تا ہے۔

وقت آگیا ہے کہ ہم ماحولیات دوست ٹیکنالوجی کے استعمال کے ساتھ ’سوادیشی‘ نظام کو اپنائیں۔ یہ طریقہ کار کوئی منفی عمل نہیں ہے اور نہ ہی اس کا مطلب دوسروں کا بائیکاٹ کرنا یا دوسروں سے نفرت کرنا ہے۔ بلکہ یہ خود انحصاری کا ایک طریقہ کار ہے۔ ایک قوم کی حیثیت سے ہمیں ہر وہ چیز خود پیدا کرنی چاہیے،جو ہم کرسکتے ہیں۔ ادویات سے لیکر خوراک تک ہر چیز ہمیں اپنے آس پاس ہی پیدا کرنی چاہیے۔ ہمیں مقامی سطح پر چیزیں پیدا کرنےکا اختیار حاصل ہے۔ ہمیں سوادیشی نظام اور استحکام کی طرف راغب ہونا چاہیے۔ جب بھی ہمیں کوئی چیز خریدنی ہو تو ہمیں پہلے یہ سوچنا چاہیے کہ کیا ہم اس کے متبادل میں کوئی اور ایسی چیز استعمال کرسکتے ہیں، جسے مقامی طور پیدا کیا جاسکتا ہے؟

آخری مرحلے پر ہمیں ایگرو اکولوجی انڈسٹریل فوڈ سسٹم( یعنی ماحولیات دوست زرعی نظام) قائم کرنے کی طرف توجہ دینی ہوگی۔ مویشیوں اور پولٹری کے فارمز نے نہ صرف انسانی صحت کو تباہ کردیا ہے بلکہ ان کی وجہ سے زمین بھی مہلک ہوگئی ہے۔ موجودہ نظام کی وجہ سے دنیا میں کسانوں کی خود کشی، کینسر کے پھیلاؤ اور چھوٹے کسانوں کی حق تلفی اور اُن کا استحصال جیسی چیزیں دیکھنے کو مل رہی ہیں۔ مہلک اجزا کی ملاوٹ کی وجہ سے ہمارے دریا آلودہ ہوگئے ہیں۔ لوگ ناقص خوراک کی وجہ سے ذیابطیس اور کینسر جیسے امراض میں مبتلا ہورہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ کھاد کی سبسڈی کی وجہ سے ملک کے ٹیکس دہندگان کو بھاری نقصان سے دوچار ہونا پڑرہا ہے۔

انٹرنیشنل میز اینڈ وہیٹ امپرومنٹ سینٹر(CIMMYT) کے پرنسپل سائنٹسٹ ایم ایل جاٹ نے اپنی ایک حالیہ تحقیق میں ثابت کیا ہے کہ ایگرو اکولوجی کے استعمال سے نہ صرف ہم صحت مند غذا فراہم کرسکیں گے بلکہ ہماری خوراک میں کیمیکل اور دیگر نقصان دہ اجزا کی شمولیت کو بھی کم کیا جاسکتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اس ضمن میں ہم کہاں سے شروعات کرسکتے ہیں؟ ہمیں اپنے گھروں سے اس کی شروعات کرنی ہوگی۔ ہم سبزیاں اگا سکتے ہیں۔ ہم دھنیا جیسی چیزیں چھوٹے برتنوں میں اُگا سکتے ہیں۔ کوشش کریں کہ جو کچھ آپ کھاتے ہیں، اس میں سے کچھ نہ کچھ خود اُگائیں۔ اگر آپ خود ایسا نہیں کرسکتے ہیں تو کسانوں سے رابطہ کریں جو آپ کو یہ کام کرکے دے سکتے ہیں۔ ہم میں سے جو لوگ شہروں میں رہتے ہیں، وہ پھلواریاں قائم کرسکتے ہیں۔اس طرح سے ہم اپنے بچوں کو بھی سکھا سکتے ہیں کہ چیزیں کیسے اُگائی جاتی ہیں۔

ان تمام باتوں پر عمل کرکے ہم گرین اکونامی قائم کرسکتے ہیں، جس کے نتیجے میں ہماری زمین میں نئی جان پیدا ہوگئی اور ہمیں معاشی خود اختیاری حاصل ہوگی۔ اب جبکہ دُنیا اقتصادی بدحالی کا شکار ہوچکی ہے، بھارت کو از سر نو خود کو کھڑا کرنا ہوگا۔ ہمیں نئی عادات اپنانی ہوں گی۔ مہاتما گاندھی نے کہا ہے کہ سوادیشی نظامِ معیشت پہلے ہی ہمارے پاس ہے۔ آج اس یوم ارض پر ہمیں عزم کرنا ہوگا کہ ہم سائنسی بنیادوں پر از سر نو متحرک ہوجائیں گے اور اپنی زمین کو تحفظ فراہم کریں گے۔

اندرا شیکھر سنگھ

(مصنف پالیسی اینڈ آوٹ ریچ، نیشنل سیڈ ایسوسی ایشن آف انڈیا کے ڈائریکٹر ہیں)

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.