ملک بھر میں چل رہے سی اے اے، این آر سی اور ایم پی اے کے خلاف احتجاج کے مدنظر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ٹیچرز ایسوسی ایشن کی جانب سے ایک عوامی بحث رکھی گئی۔
یونیورسٹی آرٹس فیکلٹی کے قریب جس میں یونیورسٹی کے کئی اساتذہ کے ساتھ طلبہ نے بھی شرکت کی۔
عوامی بحث میں شاہین باغ میں چل رہے احتجاجی مظاہرے کی تعریف کرتے ہوئے وہاں پر موجود خواتین کے جذبے کو سلام کیا گیا اور شاہین باغ کی چنگاری ہی ملک کے دوسرے حصوں میں جارہی ہے جس کی وجہ سے ملک کے دیگر جگہوں پر سی اے اے، این آئی سی اور این پی آر کے خلاف عوام احتجاجی مظاہرہ کر رہی ہے۔
اس موقع پر پروفیسر اپوروانند نے بھی شرکت کرتے ہوئے کہا مجھ کو نہیں معلوم میں احتجاج میں شامل ہو یا نہیں لیکن یہ ایک ایسی مہم ہے۔
جمہوریت کی جس میں شامل ہونا ہر انسان کا فرض ہے جس کے لئے ہندوستانی ہونا بھی ضروری نہیں ہے۔ جیسا آپ کو معلوم انگلینڈ، کینیڈا، فرانس کی سڑکوں پر لوگ نکل آئے ہے۔
کسی بھی ملک میں جب جمہوریت خطرے میں پڑتی ہے تو پوری دنیا کے لئے خطرہ کی بات ہوتی ہے اور جب پوری دنیا کے لوگ باہر آئے ہیں تو ایسا کیسے ہوسکتا ہے دہلی کے قریب علی گڑھ میں کچھ ہو رہا ہو اور دہلی کا شخص یہاں نہ آئے۔
پروفیسر اپوروانند نے مرکزی حکومت کو نشانہ بناتے ہوئے کہاں یہ تو ان کی سیاست کی بنیاد ہیں جس کو سیاست کا بلڈنگ بلاک کہتے ہیں۔ وہ بلڈنگ بلاک ہے "اینٹی مینورٹی نیٹریٹ"، "اینٹی مائنورٹی پوائزن" وہ اس کو چھوڑ دیں گے تو ان کی سیاست کا محل بھربھرا کر گر جائے گا۔
اس لیے لیے اس کو وہ بڑھائیں گے اب یہ ہمارے اوپر ہمارا امتحان ہے ہم اس کا سامنا کیسا کرتے ہیں۔
پروفیسر اپوروانند نے کہا 370 کو جو کمزور کیا گیا ہے وہ کشمیر کو بےعزت کرنے کے لئے کیا گیا ہے ناصرف کشمیر کو بلکہ بھارت کے مسلمانوں کو بھی بےعزت کرنے کے لئے لیے کرا گیا ہے۔