اے ایم یو میں گزشتہ 38 دنوں سے مستقل سی اے اے، این آر سی اور این پی آر کے خلاف احتجاجی مظاہرہ جاری ہے۔ جس کے مدنظر آج یونیورسٹی طلبا و طالبات نے تین مختلف احتجاجی مارچ نکالے۔
پہلا مارچ یونیورسٹی کے دسویں اور بارہویں جماعت کے طلبا و طالبات نے نکالا، دوسرا یونیورسٹی کے یونانی اور میڈیسن کے طلبأ و طالبات نے وائٹ کورٹ مارچ نکالا، تیسرا طالبات نے اپنے ہاتھوں میں کالے غبارے لے کر احتجاجی مارچ نکالا، تینوں احتجاجی مارچ یونیورسٹی کے پرانی چونگی گیٹ سے باب سید تک نکالے گئے۔
تینوں احتجاجی مارچ میں سی اے اے، این آر سی اور این پی آر کے خلاف نعرے بازی کی گئی اور وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور اور رجسٹرار عبدالحمید (آئی پی ایس) کے خلاف نعرے بازی کرتے ہوئے ان کے استعفی کا بھی مطالبہ کیا۔
واضح رہے کہ یونیورسٹی کے طلباء اپنی کلاسز اور امتحانات کا بائیکاٹ کرتے ہوئے روزانہ مختلف شکلوں میں اسی طرح احتجاجی مارچ کر رہے ہیں۔ طلبہ کا مرکزی حکومت سے مطالبہ ہے کے وہ سی اے اے، این آر سی اور این پی آر کو واپس لے۔
طلبأ مبینہ طور پر 15 دسمبر کے تشدد کا وائس چانسلر اور رجسٹر کو ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے دونوں کے استعفی کا بھی مطالبہ ہر احتجاجی مارچ میں روزانہ کرتے رہتے ہیں۔
دسویں جماعت کی طالبہ نے بتایا' ملک کے لوگ کتنے بے روزگار ہیں ان کو صحیح سے روزگار نہیں مل رہا اور حکومت باہر سے لوگ لے کر آئے گی ان کو روزگار کہاں سے دیں گے۔ پہلے اپنے ملک کے لوگوں کو کچھ دیجئے کتنے لوگ بے روزگار ہیں تعلیم نہیں ہیں'۔
جواہر لعل نہرو میڈیکل کالج کے ریسیڈنٹ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے صدر محمد حمزہ نے بتایا کہ' وائٹ کوٹ مارچ نکالنے کا مطلب یہی ہے موجودہ حکومت قانون لے کر آئی ہے شہریت ترمیمی قانون اور این آر سی کے طلبأ اس کی سخت الفاظ میں مذمت اور مخالفت کرتے ہیں'۔